Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي : میں الْقِصَاصِ : قصاص حَيٰوةٌ : زندگی يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور اے اہل عقل ! (حکم) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے کہ تم (قتل و خونریزی سے) بچو۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) جب فاعل کے اپنے حصے کے اندر اس پر حد واجب نہیں ہوئی تو یہ بات دوسرے شریک کے حلے میں حد کے وجوب کے لیے مانع بن جائے گی، کیونکہ اس میں تبعیض نہیں ہوسکتی، اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اگر دو افراد کسی ایسے شخص کی چوری کرلیں جو ان میں سے ایک کا بیٹا ہو دونوں میں سے کسی کا بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مسروقہ چیز کی حفاظت کا حصار توڑنے کے جرم میں ایک کی مسارکت ایسے دوسرے شخص کے ساتھ ہوئی تھی جو قطع ید کا مستحق نہیں ہے۔ یعنیی مال کے مالک کا باپ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ عامد اور مخطی، عاقل اور دیوانے ، بالغ اور بچے کی شراکتوں میں وقوع پذیر ہونے والے قتل عمد میں عمد کا حکم عامد یا عاقل یا بالغ کے ساتھ متعلق ہونے کی وجہ سے ان پر قصاص واجب کردیتا ہے جیسا کہ آپ نے تلاوت کردہ آیات سے استدلال کیا ہے کہ مذکورہ بالا قاتلین کے جوڑوں میں ہر جوڑے کا ہر فراد پوری جان کا قاتل اور پوری زندگی کا متلف ہوتا ہے۔ اور سای بنا پر وہ اشتراک و انفراد کی دونوں حالتوں میں وعید کا مستحق گردانا جاتا ہے، نیز اسی بنا پر کسی شخص کو عمداًٰ قتل کرنے والی پوری جماعت کے ہر فرد پر قصاص واجب ہوجاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں مذکورہ جماعت کا ہر فرد اس شخص کا حکم میں ہوتا ہے جس نے انفرادی طور پر پوری جان لی ہو۔ یہ وضاحت اس امر کی موجب ہے کہ اگر عاقل اور دیوانے کا جورُا قتل عمد میں شریک ہو تو عاقل کو قصاص میں قتل کردیا جائے۔ نیز بچے اور بالغ کے جوڑے کی صورت میں بالغ کو عامد اور مخطی کے جوڑے کی صورت میں عامد کو قتل کردیا جائے اور مذکورہ افراد سے قصاص کا حکم اس بنا پر ساقط نہ ہو کہ ان کی مشارکت ایسے افراد کے ساتھ تھی جن سے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس بنا پر واجب نہیں ہے کہ سب حضرات اس امر پر متفق ہیں کہ اگر قتل کے ارتکاب میں شرکت کرنے والا شخص ایسا ہو جس پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا، یعنی دیوانہ یا نابالغ یا مخطی تو اس صورت میں اس پر دیت کا کچھ حصہ لازم ہوجائے گا۔ اور جب دیت لازم ہوجائے گی تو اس کے نتیجے میں دونوں قاتلوں سے عمد کا حکم منتفی ہوجائے گا۔ کیونکہ اتلاف کی حالت میں جان کی تبعیض نہیں ہوتی۔ اس لیے دونوں قاتل قتل خطا کے حکم میں ہوجائیں گے۔ اور یہ قتل قصاص والا قتل قرار نہیں پائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے جس شریک قاتل پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا اس پر دیت کا ایک حصہ واجب ہوتا ہے، پوری دیت واجب نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دونوں قاتل قتل خطا کے حکم میں ہوگئے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو پوری دیت واجب ہوجاتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر تمام قاتلوں پر قصاص کا حکم جاری ہوتا تو ایسی صورت میں ہم تمام قاتلین سے قصاص لے لیتے اور ان میں ہر قاتل کے حکم میں ہوتا جس نے تنہا قتل کا ارتکاب کیا ہو اور جب اس شریک قاتل پر دیت کا ایک حصہ واجب ہوگیا جس پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوسکتا۔ تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قصاص ساقط ہوگیا۔ نیز یہ کہ مقتول کی جان قتل خطا کے حکم میں ہوگئی اور اسی بنا پر دیت قاتلوں کی تعداد پر تقسیم ہوگئی۔ جب امام شافعی ہمارے ساتھ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر قتل کے ارتکاب میں شریک دو افراد میں سے ایک فرد عامد ہو اور دوسرا مخطی تو عامد پر قصاص واجب نہیں ہوگا تو ان پر لازم آتا ہے کہ وہ یہی حکم ان صورتوں میں بھی عائد کریں جب عاقل اور دیوانہ یا بالغ اور بچہ مل کر کسی کو قتل کردیں کیونکہ ان صورتوں میں عاقل یا بالغ کی مشارکت ایسے افراد کے ساتھ ہوگی جن پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ہم نے اصول کے اندر یہ بات دیکھی ہے کہ ایک شخص کے سلسلے میں مال اور قصاص دونوں کا وجوب ممتنع ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر قاتل ایک شخص ہو اور اس پر مال واجب ہوجائے۔ تو قصاص کا وجوب منتفی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح وطی، یعنی عورت کے ساتھ ہمبستری کا حکم ہے۔ کہ جب ہمبستری کی بنا پر مہر واجب ہوجائے تو حد ساقط ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سرقہ کی کیفیت ہے کہ جب اس کی بنا پر تاوان واجب ہوجائے تو ہمارے نزدیک قطع ید کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں مال صرف اس وقت واجب ہوتا ہے جب قصاص اور حد کو ساقط کردینے والے شبہ کا وجود ہوجائے ۔ جب زیر بحث مسئلے میں بالا تفقا مال واجب ہوگیا تو اس کی وجہ سے قصاص کا وجوب منتفی ہوگیا۔ ہم نے اوپر جو صورتیں بیان کی ہیں ان میں قصاص کا سقوط اس کے ایجاب سے اولیٰ ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قصاص اپنے ثبوت کے بعد بعض دفعہ مال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جبکہ مال کسی بھی صورت میں قصاص میں تبدیل نہیں ہوتا۔ اس لیے اس چیز کا اثبات جو کبھی بھی فسح ہو کر کوئی اور صورت اختیار نہیں کرتی اس چیز کے اثبات کی بہ نسبت اولیٰ ہوگا جو بعض دفعہ ثابت ہونے کے باوجود نسخ ہو کر کوئی اور صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ دو قاتلوں میں سے اگر قصاص کا سقوط ایک سے ہوجائے ، تو یہ بات دوسرے قاتل سے بھی قصاص ساقط کر دے گی۔ اگر کہا جائے کہ قتل عمد میں شریک دو افراد میں سے ایک کو مقتول کا ولی اگر معاف کردے تو دوسرے قاتل کو قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ لازم ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں بھی یہی حکم عابد کریں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ اعتراض امام شافعی کے اصول پر وارد ہوتا ہے ۔ ہم پر وارد نہیں ہوتا، کیونکہ اس اعتراض کی بنا پر امام شافعی پر لازم ہوگا کہ جب ارتکاب قتل کے اندر عابد کے ساتھ مخطی شریک ہوجائے تو وہ عابد سے قصاص لینے کا حکم عائد کریں اور ان کی نظر میں اس قاتل سے قصاص کی نفی میں مذکورہ مشارکت کو کوئی دخل نہیں جس پر تنہا قتل کے ارتکاب کی صورت میں قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ خواہ قتل عمد میں شریک دو افراد میں سے ایک کو مقتول کے ولی کی طرف سے معافی مل جائے کی بنا پر اس سے قصاص کا سقوط دوسرے قاتل سے قصاص ساقط نہ بھی کرے جب مخطی اور عامد کے اندر امام شافعی کے نزدیک عامد سے قصاص لینا لازم نہیں ہے تو پھر ہمارے نزدیک بھی بچے اور نابالغ نیز دیوانے اور عاقل کی صورتوں میں بالغ یا عاقل سے قصاص لینا لازم نہیں ہوگا۔ مذکورہ اعتراض ایک اور وجہ سے بھی ساقط الاعتبار ہے، وہ یہ کہ زیر نظر گفتگو استیفاء ( قصاص پر عملدرآمد) کے بارے میں ہے اور استیفاء شراکت کے طور پر واجب نہیں ہوتا، یعنی یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دونوں قاتلوں کو مشترکہ طور پر قتل کیا جائے کیونکہ مقتول کے ولی کو اختیار ہوتا ہے کہ دونوں میں سے جسے چاہے قتل کر دے، اسے یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ دونوں مییں سے جو قاتل ہاتھ آ جائے اسے قتل کر دے۔ نیز ہمارا زیر بحث مسئلہ ابتداء وجوب کے بارے میں ہے جب قتل کا وقوعہ مسارکت کی صورت میں ہوا ہو۔ ایسی صورت میں یہ بات محال ہوگی کہ دونوں قاتلوں میں سے ہر ایک دوسرے کے سوا حکم کے اندر اتلاف کرنے والا قرار پائے۔ حکم کے اندر دونوں میں سے ایک کا دوسرے ک بغیر تنہا رہ جانا محال ہے۔ نیز وجوب استیفاء سے ایک مختلف حکم ہے۔ اس لیے وجوب پر استیفاء لازم کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ استیفاء کا حالت کو وجوب کی حالت پر اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ استیفاء کے وقت قاتل کا تائب ہو کر ولی اللہ ہونا ممکن ہے جبکہ قصاص موجب قتل کے ارتکاب کے وقت اس کا ولی اللہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ ممکن ہے کہ زانی توبہ کرے۔ ایسی صورت میں اس پر حد کے استیفاء کا حق باق رہے گا، لیکن تائب ہوجانے کی حالت میں حد کا وجوب جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے جو شخص وجوب کی حالت کی اتیفاء کی حالت پر اعتبار کرے گا وہ در حقیقت اس بات کے کہنے سے غفلت برتے گا جس کا کہنا اس پر واجب ہے، نیز جب مقتول کا ولی ایک قاتل کو معاف کر دے گا تو اس کے قتل کا حکم ساقط ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں دوسرا قاتل مقتول کو تنہا قتل کرنے والے کے حکم میں ہوجائے گا، اس لیے اس پر قصاص لازم ہوجائے گا اور دوسرے سے قصاص ساقط ہونے کی بنا پر اس سے قصاص ساقط نہیں ہوگا۔ رہ گیا دیوانہ اور نابالغ ، نیز مخطی تو ان سب کا فعل غلطی کے طور پر ثابت ہوگا اور یہ بات اس شخص کے خون کی ممانعت کی موجب ہوگی جو ان کے ساتھ شریک ہوا ہوگا۔ کیونکہ قتل کے اندر دونوں کے اشتراک کی وجہ سے جو حکم دیوانے یا نابالغ یا مخطی کا ہوگا وہی حکم اس کے شریک کا بھی ہوگا۔ گزشتہ سطور میں ہم نے کتاب اللہ سے جو دلائل پیش کیے ہیں، نیز عقلی طور پر جو استدلال کیا ہے اس سے جب ثہ بات ثابت ہوگئی ج کہ عاقل ، مخظی یا بالغ کے ساتھ قتل کے فعل میں کوئی ایسا فرد شامل ہوجائے جس پر قصاص کا حکم جاری نہیں ہوتا، یعنی دیوانہ، عامد یا بالغ تو ان سے بھی قصاص کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا جائز ہے کہ جن آیات میں قصاص کا ذکر ہے ان کے حکم کے موجب کی (حرف جیم کے زبر کے ساتھ) ان دونوں قسموں کے افراد کی بنا پر تخصیص کردی جائے وہ آیات یہ ہیں : کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ نیز : الحر بالحر نیز ومن قتل مظلوما اور النفس بالنفس نیز حضور ﷺ سے مروی ان احادیث کا عموم جو قصاص کو واجب کرتی ہیں۔ نیز یہ تمام دلائل چونکہ ایسے عموم کی صورت میں ہیں جن سے بالاتفاق خصوص مراد ہے اس لیے نظری دلائل کے ذریعے اس قسم کے عموم کی تخصیص جائز ہے۔ واللہ الموفق، امام محمد نے فرمایا ہے کہ اگر عابد کے ساتھ بچہ یا دیوانہ قتل کے فعل میں شریک ہوجائے تو اس صورت میں عابد پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ امزنی کے قول کے مطابق امام شافعی نے اس مسئلے میں امام محمد کے خلاف یہ کہہ کر استدلال کیا ہے کہ اگر آپ نے عامد سے قصاص کا حکم اس بنا پر رفع کیا ہے کہ اس کا شریک بچہ یا دیوانہ دونوں مرفوع القلم ہیں اور ان عمد بھی خطا ہے، تو پھر آپ اس اجنبی قر قصاص کیوں نہیں واجب کرتے جو کسی شخص کو اس کے باپ کے ساتھ مل کر عمداً قتل کر دے کیونکہ باپ تو موفوع القلم نہیں ہوتا۔ ہمارے خیال میں امام شافعی نے یہ استدلال کر کے اپنا موقف ترک کردیا ہے۔ چناچہ المزنی نے کہا ہے کہ اس مسئلے میں امام شافعی نے امام محمد پر تنقید کر کے ان کی ہمنوائی کرلی ہے کیونکہ مخطی اور دیوانے سے قصاص کی حکم رفع کردینا ایک ہی بات ہے۔ اسی طرح مخطی دیوانے اور بچے کے ساتھ قتل عمد میں شریک افراد کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ المزنی نے امام شافعی سے جو بات نقل کی ہے وہ دراصل ایک چیز کو اس کے موقع اور محل کے بغیر لازم کردیا ہے۔ امام محمد کی بیاں کردہ اس اصل کے تحت جو لات لازم آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایسا قاتل جس کا عمد بھی خطا شمار ہو اس کے ساتھ قتل کے فعل میں شریک شخص سے قصاص نہیں لیا جائے گا خواہ یہ شریک عامد ہی کیوں نہ ہو، لیکن جس قاتل کا عمد خطا شمار نہیں ہوتا تو اس کے سلسلے میں یہ بات لازم نہیں ہے کہ قتل کے فعل میں اس کے شریک اور اس کے حکم کے درمیان فرق رکھا جائے، بلکہ اس کا حکم اس حکم کی دلیل پر موقوف ہوتا ہے کیونکہ یہ عکس علت کی صورت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص شرع کے اندر ایک علت پر کسی حکم کی بنیاد رکھے تو اس سے یہ لازم نہیں ہتا کہ وہ مذکورہ علت کو الٹ دے، یعنی عکس علت کر دے اور پھر مذکورہ علت کی عدم موجودگی میں ایسے حکم کا ایجاب کر دے جو مذکورہ علت کی موجودگی میں اس کے موجَب کی ضد ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ہم کہتے ہیں غرر ( دھوکے اور فریب) کا وجود بیع کے جواز کے لیے مانع ہے تو اس سے ہم پر لازم نہیں آتا کہ غرر کی عدم موجودگی میں ہم بیع کے جواز کا حکم عائد کردیں، کیونکہ یہ عین ممکن ہوتا ہے کہ غرر کی عدم موجودگی کے باوجود کسی اور وجہ سے مذکورہ بیع کا جواز ممنوع ہو، مثلاً یہ ک مبیع بائع کے قبضے میں نہ ہو یا بائع نے ایسی شرط عائد کردی ہو جسے عقد بیع ضروری قرار نہ دیتا ہو، یا یہ کہ ثمن مجہول ہو اور اسی طرح کے دیگر امور جو بیع کے عقود کو فاسد کردیتے ہیں یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ غرر ختم ہوجانے کی صورت میں جواز و فساد کی دلالت کی روشنی میں مذکورہ بیع جائز ہوجائے۔ عقد کے مسائل میں اس کے نظائر بیشمار ہیں اور فقہ کے ساتھ ادنیٰ ارتباط رکھنے والے کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں حضور ﷺ کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ج اس کتا ہے جس کی رواییت حضرت ابن عمر ؓ نے کی ہے کہ آپ نے فرمایا : لوگو، آگاہ رہو، خطا العمد کا مقتول وہ مقتول ہے جسے کوڑے اور لاٹھی کے ذریعے قتل کردیا جائے اس میں دیت مغلطہ واجب ہوتی ہے۔ بچے اور بالغ یا دیوانے اور عاقل یا مخطی اور عابد کے ہاتھوں قتل ہونے والا شخص دو وجوہ سے خطا العمد ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضور ﷺ نے خطا العمد کے تحت مقتول کی تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ کوڑے اور لاٹھی کے ذریعے قتل ہون والا شخص ہے اس لیے اگر کوئی دیوانہ لاٹی کے ساتھ اور کوئی عاقل تلوار کے ساتھ کسی کے قتل میں شریک ہوجائے، تو حضور ﷺ کے فیصلے کے مطابق وہ خطا العمد کے تحت مقتول قرار پائے گا اور اس قتل میں ” قصاص نہ لینا واجب ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بچے اور دیوانے کا عمد بھی خطا ہے اس لیے کہ قتل کی تین میں سے ایک صورت ہوتی ہے۔ خطا یا عمد یا شبہ عمد اور جب بچے اور دیوانے کا ارتکاب قتل عمد نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ ان کا ارتکاب قتل کی باقیماندہ دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا حامل ہو، یعنی خطا یا شبہ عمد کا ان دونوں میں سے چاہے جو بھی صورت ہو حضور ﷺ کے ارشاد کا ظاہر اس امر کا مقتضی ہے کہ قتل کے فعل سے بچے یا دیوانے کے ساتھ شرییک قاتل سے قصاص ساقط کردیا جائے کیونکہ مذکورہ مقتول یا تو قتل خطا کا مقتول ہوگا یا شبہ عمد کا۔ نیز حضور ﷺ نے مذکورہ مقتول کے لیے دیت مغلظہ واجب کردی ہے۔ اور جب کامل دیت واجب ہوجائے تو بالا تفاق قصاص کا سقوط ہوجاتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد ” خطا العمد کے مقتول “ سے یہ مراد لی ہے کہ ایک شخص تنہا کسی کو کوڑے اور لاٹھی سے قتل کر دے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قتل کے اس فعل میں اگر کوئی اور شخص تلوار لے کر اس کے ساتھ شریک ہوجائے، تو یہ بات مذکورہ مقتول کو کوڑے اور لاٹھی کا مقتول نیز قت خطا کا مقتول بننے سے خارج نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ دونوں اشخاص میں سے ہر ایک قاتل ہوگا اور اس اعتبار سے یہ ضروری ہوگا کہ مقتول ان میں سے ہر ایک کا مقتول قرار پائے۔ اس لیے حضور ﷺ کے الفاظ دونوں صورتوں کو شامل ہوں گے اور دونوں صورتوں کے اندر قصاص منتفی ہوجائے گا۔ ہماری مذکورہ بات کی صحت پر نیز عاقل کے ساتھ دیوانے کی مشارکت اور عامد کے ساتھ مخطی کی مشارکت کے حکم میں فرق کے عدم جواز پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اگر ایک شخص حالت جنون میں کسی شخص کو زخمی کر دے اور پھر اسے جنون سے افاقہ ہوجائے اور افاقہ کے بعد وہ دوبارہ اسے زخمی کر دے اور پھر ان دونوں زخمیوں کا مجروح مرجائے، تو قاتل پر کوئی قصاص عائد نہیں ہوگا جس طرح اگر ایک شخص کسی کو غلطی سے زخمی کرنے کے بعد اسے دو بار عمداً زخمی کر دے اور ان دونوں زخموں سے مجروح مرجائے تو قاتل پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک شخص کسی کو اس کے ارتداد کی حالت میں زخمی کر دے اور پھر مجروح مسلمان ہوجائے تو جارح پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ یہ صورتیں دو باتوں پر دلالت کرتی ہیں۔ ایک تو یہ ک اگر ایک شخص کو دو قسم کے زخم لگے ہوں جن میں سے ایک قصاص کا موجب ہو اور دوسرا قصاص کا موجب نہ ہو اور پھر مذکورہ مجروح مرجائے، تو اس کی موت قصاص کے اسقاط کی موجب ہوگی اور قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں اس زخم کا جس میں قصاص کے اسقاط کا کوء شبہ نہ ہو دوسرے زخم سے الگ کر کے کوئی حکم نہیں ہوگا، بلکہ حکم اس زخم کا ہوگا جس نے قصاص واجب نہیں کیا۔ اس بنا پر یہ بات واجب ہے کہ اگر ایک آدمی دو افراد کے لگائے ہوئے زخموں سے مرجائے جبکہ ان میں سے ایک ایسا ہو جس کا تنہا لگایا ہوا زخم قصاص واجب کرتا ہو اور دوسرا ایسا ہو جس کا تنہا لگایا ہوا زخم قصاص واجب نہ کرتا ہو، تو اس صورت میں قصاص کا سقوط ان کے ایجاب سے لگایا ہوا زخم قصاص واجب نہ کرتا ہو، تو اس صورت میں قصاص کا سقوط ان ان کے ایجاب سے اولیٰ قرار دیا جائے کیونکہ مذکورہ مجروح کی موت ان دونوں زخموں سے واقع وئی تھی اس لیے قصاص کا سقوط کے موجب زخمی کا حکم قصاص واجب کرنے والے زخمی کے حکم سے اولیٰ ہوگا ان دونوں صورتوں میں علت یہ ہے کہ مجروح کی موت ایسے دو زخموں کے نتیجے میں واقع ہوئی تھی جن میں سے ایک زخم قصاص کا موجب تھا اور دوسرا قصاص کا موجب نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے شروع میں بیان کردیا تھا کہ قتل کے فعل میں اشتراک کی صورت کے اتعبار سے مخطی اور عامد کے درمیان نیز دیونے اور عاقلے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جس طرح دیوانگی کے دوران میں دیوانے کے جرم اور پھر افاقہ کی حالت میں اس کے جرم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا، اگر ان دونوں جرموں کے نتیجے میں موت واقع ہوجائے۔ اسی طرح اگر غلطی سے کسی کے خلاف جنایت ، یعنی جرم ہوجائے اور پھر عمداً جنایت کی جائے اور ان دونوں جرموں کے نتیجے میں موت واقع ہوجائے تو دونوں جرموں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اور مذکورہ بالا دونوں حالتوں میں قصاص ساقط ہوجائے گا۔ اگر عاقل کی جنایت میں دیوانے کی مشارکت ہوجائے اور عامد کی جنایت میں مخطی کی مشارکت ہوجائے تو اسی طرح مناسب یہی ہے کہ عاقل کی جنایت کا حکم دیوانے کی جنایت کے حکم سے اور عامد کی جنایت کا حکم مخطی کی جنایت کے حکم سے مختلف نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ عمداً قتل کیے جانے والے شخص کے ولی کا حق ارشاد باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ) نیز وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس ( اور ہم نے تورات میں بنی اسرائیل پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان ہے) نیز : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت میں قصاص مراد ہے، نیز ارشاد ہے وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ( اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو) نیز : فمن اعتدی علیکھ فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکھ ( جو شخص تم سے زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اس قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے تم سے کی ہے ) یہ آیات ایجاب قصاص کے سوا اور کسی امر کی مقتضی نہیں ہیں۔ قتل عمد کے موجب کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب ، امام مالک، سفیان ثوری، ابن شبرمہ اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ قتل عمد کی صورت میں مقتول کے ولی کو صرف قصاص لینے کا حق ہوگا اور قاتل کی رضا مندی کے بغیر وہ دیت وصول نہیں کرے گا۔ اوزاعی، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ ولی کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو قصاص لے لے اور اگر چاہے تو دیت وصول کرے خواہ قاتل رضا مند نہ بھی ہو۔ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اگر مفلس ( دیوالیہ) ولی قصاص معاف کر دے تو ایسا کرنا جائز ہوگا اور اس کے قرض خواہ نیز اہل وصایا اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتے کیونکہ عمد کی بنا پر مال کی ملکیت صرف اس شخص کی مرضی سے ہو گیی جس کے خلاف جرم کیا گیا ہے ، اگر وہ زندہ ہو۔ اور اگر وہ مرچکا ہو تو ورثاء کی مرضی سے ایسا ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن آیات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کے ظواہر ہر لفظی اشتراک کے بغیر بیان مراد کو متضمن ہونے کی بنا پر قصاص کے موجب ہیں، مال کے نہیں۔ اور تخییر کے طور پر مال کا ایجاب صرف ایسی دلیل کی نا پر جائز ہوسکتا ہیجس کے ذریعے قصاص کے حکم کا نسخ جائز ہو۔ اس لیے کہ نص قرانی میں اضافہ اس کا نسخ کا موجب بن جاتا ہے ۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : یایھا الذین امنو لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ( اے ایمان لانے والو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے اہل اسلام میں سے ہر شخص کا مال لینے کی ممانعت کردی ہے، الایہ کہ لین دین کے طور پر رضا مندی سے مال لیا جائے۔ حضور ﷺ سے بھی اسی قسم کی حدیث مروی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ اس لیے جب قاتل مال دینے پر رضا مند نہ ہو تو اس کا مال ہر شخص کے حق میں ممنوع ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک حدیث مروی ہے جس کی سند ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : عمد قصاص ہے الا یہ کہ مقتول کا ولی معاف کر دے سلیمان بن کثیر نے روایت بیان کی ہے ، ان سے عمرو بن دینار نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضور ﷺ نے فرمایا : جو شخص عمیا ( اندھا قتل) ( ایسا شخص جو ایک دوسرے پر تیر اندازی کرنے والوں کے درمیان مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کا پتہ نہ چلے) میں یا اژدہام میں قتل ہوجائے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو، یا لوگوں کے درمیان سنگبازی یا کوڑے یا لاٹھیاں چلنے کے دوران مرجائے تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہوگی، اور جو شخص عمداًٰ قتل ہوجائے تو اس کا قصاص لیا جائے گا اور جو شخص مقتول اور اس کے قصاص کے درمیان حائل ہوگا اس پر اللہ کی ، فرشوں کی ا اور تمام لوگوں کی لعنت برسے گی۔ ان دونوں حدیثوں میں حضور ﷺ نے واضح فرما دیا کہ عمد کی بنا پر واجب ہونے والی سزا قصاص ہے۔ اگر ولی کو دیت لینے کا اختیار ہوتا تو آپ صرف قصاص کے ذکر قر اقتصار نہ کرتے، بلکہ دیت کی بات بھی بیان کردیتے۔ اس لیے ی بات درست نہیں ہے کہ ولی کو دو چیزوں میں سے ایک کے لینے کا اختیار دیا جائے اور پھر صرف ایک چیز کے بیان پر اقتصار کیا جائے اور دوسری چیز بیان نہ کی جائے۔ یہ بات تخییر کی نفی کی موجب ہے۔ اگر اس بیان کے بعد تخییر کا اثبال کیا جائے گا تو اس سے مذکورہ بیان کا نسخ لازم آئے گا۔ اگر کہا جائے ک ابن عینیہ نے مذکورہ دوسری حدیث عمرو بن دینار سے اور انہوں نے طائوس سے موقوف صورت میں روایت کی ہے ۔ اس میں انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی اسے حضور ﷺ تک مرفوع کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن عینیہ نے اس حدیث کو ایک دفعہ موقوف صورت میں بیان کیا ہے اور ایک دفعہ سلیمان بن کثیر کی طرح مرفوع صورت میں اس کی روایت کی ہے۔ ابن عینیہ کا حافظہ بہت خراب تھا اور وہ روایت کے اندر بہت غلطیاں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ طائوس نے اس کی روایت بعض دفعہ حضرت ابن عباس ؓ کے واسطے سے کی ہو اور بعض دفعہ اپنی طرف سے اسے بیان کر کے اس کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔ اس لیے مذکورہ حدیث کی سند میں حدیث کو کمزور کرنے والی کوئی بات نیہں ہے۔ قول باری : فمن عفی اہ من اخیہ شیاتباع بالمعروف واداء الیہ باحسان ( اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے سے خونبہا کا نصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ کہ راستی کے ساتھ خونبہا ادا کرے) کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ عضو سے وہ بات مراد ہے، جو آسان اور میسر ہو۔ ارشاد باری ہے : خذالعفو ( عفو اختیار کرو) یعنی اخلاق کی وہ صورتیں جو آسان ہوں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : اول وقت اللہ کا رضوان ہے اور آخر وقت اللہ کا عفو ہے، یعنی اللہ کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے تیسیر و تسہیل ہے۔ پس قول باری : فمن عفی لہ من اخیہ شی سے مراد یہ ہے کہ مقتول کے ولی کو جب کچھ مال دیا جائے تو وہ اسے قبول کر کے اور معروف طریقے سے ان کا پیچھا کرے اور قاتل اسے یہ مال راستی کے ساتھ ادا کر دے۔ اللہ سبحانہ نے ولی کو مال لینے کی ترغیب دی اگر قاتل کی طرف سے آسانی کے ساتھ یہ مال ادا کیا جائے اور بتادیا کہ اس کی جانب سے یہ بات حکم کے اندر تخفیف اور اس کی رحمت ہے۔ جس طرح سورة مائدہ میں قصاص کے ذکر کے بعد فرمایا : فمن تصدق بہ فھوا کفارۃ لہ ( جو شخص قصاص کا صدقہ کر کے وہ اس کے لیے کفارہ ہے) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے ولی کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ قصاص معاف کر کے اس کا صدقہ کر دے۔ اسی طرح زیر بحث آیت میں اللہ سبحانہ نے دیت قبول کرلینے کی ترغیب دی ، اگر قاتل دیت ادا کرے کیونکہ آیت میں پہلے تو دیت کے سلسلے میں قاتل کے ساتھ نرمی کرنے کا ذکر ہوا پھر ولی کو پیچھا کرنے کا حکم دیا گیا اور قاتل کو ہدایت کی گئی کہ وہ راستی کیساتھ ادائیگی کر دے۔ بعض حضرات نے زیر بحث آیت کے وہ معنی لیے ہیں جو حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہیں، ای کی روایت عبدالباقی ابن قانع نے کی ہے، ان سے الحمیدی نے ، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے عمرو بن دینار نے اور انہوں نے کہا کہ : میں نے مجاہد کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے تھے کہ : بنی اسرائیل کے اندر قصاص کا حکم تھا، دیت کا حکم نہیں تھا، پھر اللہ سبحانہ نے اس امت کے لیے فرما دیا : یایھا الذین امنو کتب علیکم القصاص فی القتلی۔ تا قول قاری : فن عفی لہ من اخیہ شی ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کرلی جائے اور قول باری : و اتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان ذلک تخفیف من ربکم ورحمتہ کا مفہوم یہ ہے کہ تم سے پہلے لوگوں پر جو بات فرض کی گئی تھی اب اس میں تخفیف کردی گئی ہے۔ اسی طرح قول باری فمن اعتدا بعد ذلک فلہ عذاب الیم کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص دیت قبول کرنے کے بعد زیادتی کرے گا اسے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بتایا کہ مذکورہ آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے جو بنی اسرائیل پر عائد تھی یعنی دیت قبول کرن کی ممانعت اور مقتول کے ولی کے لیے دیت قبول کرلینے کی اباحت کردی ہے، اگر قاتل اس کی ادائیگی کرے۔ یہ حکم گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر تخفیف اور اس کی رحمت کی ایک صورت ہے۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس کا دعویٰ ہمارے مخالف نے کیا ہے ، یعنی ایجاب تخییر کی بات ، تو حضرت ابن عباس ؓ آیت کی تفسیر میں یہ نہ فرماتے کہ ” عفو یہ ہے کہ دیت قبول کرلی جائے “۔ اس لیے کہ قبول کے لفظ کا اطلاق اس چیز کے لیے ہوتا ہے جس کی پیشکش دوسرا آدمی کرے۔ اگر حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک یہ بات مراد نہ ہوتی تو وہ یہ کہتے : ” عفو یہ ہے یہ کہ دیت قبول کرلی جائے جب ولی یہ بات اختیار کرے “۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ جب دیت لینے پر طرفین کی طرف سے رضا مندی کی صورت نکل آئے تو اس وقت دیت قبول کرلینا عفو کہلائے گا۔ قتادہ سے ایک روایت منقول ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل میں دیت قبول نہ کرنے کا نافذ العمل حکم ہماری شریعت میں بھی اس شخص پر ثابت ہے جو دیت وصول کرنے کے بعد قاتل کو قتل کر دے۔ یہ روایت عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے بیان کی ہے، ان سے الحسین بن ابی الربیع الجرجانی نے، ان سے عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے قول باری : فمن اعتدی بعد ذلک کی تفسیر میں ، کہ اگر ولی دیت وصول کرنے کے بعد قتل کر دے تو اس پر قتل لازم ہوگا، یعنی قصاص اور اس سے دیت قبول نہیں کی جائے گی۔ زیر بحث آیت کی ایک اور تفسیر بھی مروی ہے۔ سفیان بن حسین نے ابن اشوع سے اور انہوں نے شعبی سے اس کی روایت بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب کے دو قبیلوں کے درمیان جنگ ہوگئی۔ جنگ میں طرفین کے آدمی مارے گئے۔ ایک قبیلے نے کہا کہ ہم اس وقت تک رضا مند نہیں ہوں گے جب تک ایک عورت کے بدلے میں ایک مرد اور ایک مردے بدلے میں دو مردوں کو قتل نہیں کرلیں گے پھر وہ اپنا معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” قتل میں یکسانیت ہوتی ہے چناچہ انہوں نے دیتوں کی ادائیگی پر آپس میں صلح کرلی اور ایک قبیلے کی بہ نسبت دوسرے قبیلے کو دیت کی کچھ زائد مقدار دی گئی۔ قول باری : کتب علیکم القصصا فی القتلی تا قول باری فمن عفی لہ من اخیہ شی کا یہی مفہوم ہے۔ سفیان نے کہا ہے کہ قول باری فمن عفی لہ من اخیہ شی کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کو دیتوں کے سلسلے میں اس کے بھائی کی بہ نسبت کچھ زائد دے دیا گیا ہو تو معروف طریقے سے اسے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ شعبی نے آیت کے نزول کا سبب بیان کیا اور سفیان نے بتایا کہ عفو کے معنی فضل یعنی زائد کے ہیں۔ قول باری : حتی عفوا ( یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوگئے) یعنی ان کی کثرت ہوگئی۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” داڑھیاں بڑھائو “ آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر ایک شخص کو اس کے بھائی کی بہ نسبت ان دیتوں سے کچھ زائددے دیا گیا ہو جن پر فریقین نے صلح کی ہے تو اس کا مستحق معروف طریقے سے اس کا پیچھا کرے اور راستی کے ساتھ اسے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ زیر بحث آیت کا ایک اور مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے، بعض حضرات کے مطابق یہ حکم اس خون کے بارے میں ہے جس کے واثر ایک سے زائد افراد ہوں۔ اگر ان میں سے کچھ افراد قصاص میں اپنا حصہ معاف کردیں تو باقیماندہ ورثا کے حصے مال میں تبدیل ہوجائیں گے۔ یہ بات حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے۔ ان حضرات نے یہ بیان نہیں کیا کہ آیت کا مفہوم یہ ہے۔ ان کی بیان کردہ بات آیت کے الفاظ کی تاویل تفسیر ہے جو آیت کے مفہوم سے مطابقت رکھتی ہے۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے : یہ ارشاد اس امر کا مقتضی ہے کہ دم، یعنی قصاص کا کچھ حصہ معاف کردیا گیا ہو۔ پورا قصاص معاف نہ کیا گیا ہو۔ ایسی صورت میں باقیماندہ شرکاء کے حصے مال میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اور اس مال کی وصولی کے لیے ان پر لازم ہوگا کہ وہ قاتل کا معروف طریقے سے پیچھا کریں اور قاتل پر لازم ہوگا وہ راستی سے مذکورہ مال کی ادائیگی کر دے۔ بعض حصرات نے زیر بحث آیت کی تاویل ان معنوں میں کی ہے ک مقتول کے ولی کو قاتل کی رضا مندی کے بغیر مال لینے کا اختیار ہے، لیکن آیت کا ظاہر اس تاویل کو رد کردیتا ہے کیونکہ دیت کی وصولی کے ساتھ معافی نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : عمد قصاص ہے الا یہ کہ مقتول کے اولیاء معاف کردیں۔ آپ ﷺ نے ولی کے لیے دو میں سے ایک بات کا اثبات کردیا۔ قتل یعنی قصاص یا عفو۔ اس کے لیے کسی حال میں مال کا اثبات نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص کہے کہ ولی مال لینے کی نیت سے خون معاف کر دے تو وہ عفو کرنے والا شمار ہوگا اور آیت کا لفظ اسے بھی شامل ہوگا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر دو میں سے ایک چیز واجب ہے تو بھی جائز ہے کہ وہ مال چھوڑ کر قصاص لینے کی صورت میں عفو کرنے والا شمار ہوجائے۔ اس بنا پر ولی کے لیے یا تو خون معاف کرنا ہوگا۔ یا مال لینا۔ یہ بات غلط ہے کوئی بھی اس کا اطلاق نہیں کرتا۔ ایک اور جہت سے آیت کا ظاہر اس کی نفی کرتا ہے وہ یہ کہ اگر قصاص چھوڑ کر اور مال لے کر ولی ہی عافیص معاف کرنے والا) ہو تو اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے عفالہ نہیں کہا جائے گا، بلک اس کے یغے عفا عنہ کہاجائے گا اور اس کے نتیجے میں حرف لام کو حرف عَن کے قائم مقام کرنے کے میں تعسف اور زبردستی کا مظاہرہ ہوگا۔ یا آیت کے الفاظ کو عفالہ عن الذ مہ پر محمول کیا جایء گا، اس کے لیے ایک غیر مذکور حرف کو مخدوف ماننا پڑے گا، جبکہ اصول یہ ہے کہ اگر مذکور لفظ کے ذریعے مخدوف لفظ سے مستغنی ہوں تو حذف کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں آیت کے سلسلے میں ہماری تاویل واضح ہے کہ قاتل کی جہت سے عفو کے لفظ کو تسہیل اور اس کی طرف سے مال کی ادائیگی پر محمول کیا جائے۔ ایک اور جہت سے بھی معترض کی بات آیت کے ظاہر کے خلاف ہے۔ وہ یہ کہ قول باری : من اخیہ شی میں لفظ مِن تبعیض کا مقتضی ہے کیونکہ تبعیض ہی اس لفظ کی حقیت اور اس کا باب ہے اٍلا یہ کہ اس کے سوا کسی اور مفہوم کے لیے دلالت قائم ہوجائے تبعیض کا مفہوم اس بات کا موجب ہے کہ عفو اس کے بھائی کے خون کے بعض حصوں سے ہو، جبکہ معترض کے نزدیک یہ عفو پورے خون، یعنی قصاص سے عفو ہے۔ اس مفہوم کے اندر حرف من کے حکم کا اسقاط لازم آتا ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے ، قول باری : شیء، بھی خون یعنی قصاص کے بض حصوں سے عفو کا موجب ہے، پورے خون سے عفو کا موجَب نہیں ہے، اس لیے جو شخص اسے پورے خون پر محمول کرے گا وہ کلام کے متقضا اور موجَب کے اتعبار سے ان کا پورا حق ادا نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس صورت میں وہ کلام کو اس طرح قرار دے گا : ( وہ قاتل جس کے لیے خون معاف کردیا جائے اور اس سے دیت کا مطالبہ کیا جائے) اس صورت میں وہ لفظ مِن اور لفظ شیء کا حکم ساقط کردے گا، جبکہ کسی شخص کے لیے آیت کی ایسی تاویل جائز نہیں جو آیت کے کسی لفظ کو بےمعنی قرار دینے پر منتج ہو۔ جب تک مذکورہ لفظ کو اس کے حقیقی معنی میں استعمال کرنا ممکن ہو اس وقت تک مذکورہ تاویل کی گنجائش نہیں ہوگی اور اگر آیت کے لفظ کو ان معنوں میں استعمال کیا جائے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو یہ بات کسی اسقاط کے بغیر آیت کے ظاہر کے موافق ہوگی، اس لیے کہ اگر شعبی کی بیان کرد تفسیر آیت کی تاویل قرار پائے جس میں آیت کا نزول کا سبب بیان کیا گیا ہے، نیز بتایا گیا ہے کہ دیتوں کے اندر بعض کو بعض کی بہ نسبت زائد ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا، تو یہ تاویل آیت کے لفظ کے ساتھ موافقت رکھتی ہے اس لیے کہ ایسی صورت میں قول باری : کا مفہوم ہوگا کہ اس کے لیے اس مال میں کچھ زائد ہوگا جس پر طرفین میں صلح ہوئی ہے اور جسے ووہ آپس میں ایک دسورے سے وصول کریں گے۔ یہ پورے مال کا کچھ حصہ اور اس کا ایک جز ہوگا۔ اس صورت میں آیت کا لفظ اپنے حقیقی معنوں کے تحت سے شامل ہوجائے گا۔ اگر آیت کی تاویل یہ ہو کہ قاتل کے لیے یہ آسانی پیدا کردی جائے کہ وہ مال میں سے کچھ دے دے تو مقتول کے ولی کو مذکورہ مال قبول کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس پر اس سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو اس صورت میں بھی یہ تاویل بعض کو شامل ہوگی۔ وہ اس طرح کہ قاتل دیت کا کچھ حصہ پیش کر دے یہ حصہ اس کُل کا جز ہوگا جسے اس ن تلف کردیا ہے۔ اگر آیت کی تاویل یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس حکم کی منسوخی کی خبر دی گئی ہے جو بنی اسرائیل پر عائد تھا، یعنی قصاص کے ایجاب اور دیت یا بدل لینے کی ممانعت کا حکم تو اس تاویل کی روشنی میں بھی ہماری تاویل آیت کے مفہوم کے ساتھ سب سے بڑھ کر مناسبت کی حامل ہوگی۔ اس لیے کہ آیت قاتل اور مقتول کے ولی کے درمیان اس چیز پر صلح کے انعقاد کے جواز کی مقتضی ہے۔ جس پر طرفین کی صلح ہوجائے ، خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر۔ اس طرح بعض کا ذکر ہوا اور کُل کا حکم بتادیا گیا ۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ولا تقل لھما اف ولا تنھر ھما ( اور نہ ان دونوں، یعنی والدین کو اُف کہو اور نہی انہیں جھڑکو) اُف نہ کہنے اور جھڑکیاں نہ دینے کی نصاً ممانعت کردی اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ وہ امور کا ارادہ کرلیا۔ اس کے نظائر قرآن میں بہت زیادہ ہیں۔ اگر آیت کی تاویل مقتول کے بعض اولیاء کی طرف سے اپنے حصوں کی معافی ہو تو یہ تاویل بھی آیت کے ظاہر کے ساتھ مطابقت رکھے گی کیونکہ اس صورت میں قصاص کے بعد حصوں کی معافی ہوگی۔ پورے قصاص کی معافی نہیں ہوگی۔ ہم نے اوپر جن مت اولین کی تاویلات کا ذکر کیا ہے ان میں سے جس متاول کی بھی تاویل اختیار کی جائے اس کی یہ تاویل آیت کے ظاہر کے مطابق ہوگی سوائے اس تاویل کے جس میں کہا گیا ہے کہ مقتول کے ولی کو پورا قصاص معاف کرکے مال لینے کا حق ہوگا۔ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ ہمارے متذکرہ بالا تمام معانی آیت میں مراد ہوں۔ اس صورت میں آیت کا نزول اس سبب کی وجہ سے قرار پائے گا کہ اس کے ذریعے بنی اسرائیل پر عائد شدہ حکم منسوخ کردیا گیا اور ہمارے لیے قلیل و کثیر مال دیت کے طور پر لینا مباح کردیا گیا۔ اسی طرح ولی کو ترغیب ہے کہ وہ اس دیت کو قبول کرلے جسے قاتل آسانی سے ادا کر دے۔ اس پر ولی کو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح آیت کے نزول کا سبب وہ امر بھی ہوسکتا ہے جس کے تحت دیتوں کے اندر بعض کی بہ نسبت کچھ زائد دیا جائے، اس صورت میں اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے معروف طریقے سے پیچھا کریں اور قاتل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ رستی کے ساتھ انہیں ادائیگی کر دے۔ اسی طرح اگر بعض اولیاء خون یعنی قصاص کے اندر اپنے حصے معاف کردیں تو آیت کے نزول کا سبب اولیاء کا یہ اختلاف ہوگا جس کے اندر قصاص کا حکم بیان ہے۔ یہ تمام صورتیں اپنے معانی کے اختلاف کے باوجود ایسی ہیں جن کا زیر بحث آیت احتمال رکھتی ہے اور آیت کے کسی لفظ کو ساقط کے بغیر یہ تمام صورتیں آیت کی مراد ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ آپ کے مخالفین نے آیت کی یہ تاویل کی ہے ک اس میں ولی کے حق میں اس کے اختیار سے دیت کا ایجاب ہے خواہ قاتل اس کے لیے رضا مند نہ بھی ہو۔ آیت چونکہ اس تاویل کا بھی احتمال رکھتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ یہ صورت بھی مراد ہو کیونکہ اس تاویل سے دیگر تمام تاویلات کی نفی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں قول باری فن عفی لہ کے معنی ہوں گے ” قاتل کے لیے قصاص ترک کردیا گیا “۔ یہ معنی عربوں کے محاورے، عفت المنازل سے ماخوز ہے جس کے معنی ہیں : منازل ترک کر دئیے گئے حتیٰ کہ ان کے نشانات مٹ گئے۔ اسی طرح گناہوں کے عفوکا مفہوم ہے کہ اپر سزا ترک کردی گئی ، اس طرح آیت یہ مفہوم ادا کرے گی کہ قصاص چھوڑکر دیت وصول کرلی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بات اسی طرح ہو تو پھر ولی کی طرف سے قصاص ترک کر کے دیت لینے کی صورت میں اسے عافی، یعنی معاف کرنے والا ہونا چاہیے کیونکہ وہ دیت لینے کی غرض سے قصاص کا تارک ہے۔ حالانکہ مال کو ترک کرنا اور اسے ساقط کردینا عفو کہلاتا ہے۔ ارشاد باری ہے : فنصف مافرضتم الا ان یعفون او یعفوالذی بیدہ عقد ۃ النکاح ( تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا، یہ اور بات ہے کہ عوتر نرمی برتے اور مہر نہ لے یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے نرمی برتے) اس آیت میں عفو کے اسم کا اطلاق مال سے ابراء پر ہوا ہے۔ اور سب کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ عفو کا اطلاق اس ولی پر نہیں ہوتا جو قصاص لینے کو ترجیح دے اور دیت لینا ترک کر دے۔ اسی طرح قصاص سے ہٹ کر دیت لینے والا بھی عافی ک اسم کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو دو ایسی چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرلیتا ہے جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی اسے تخییر حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جو شخص دو میں سے ایک چیز کو اختیار کرے گا وہ اس کا واجب حق ہوگی جسے اختیار کرنے کی صورت میں وجوب کا حکم متعین ہوجائے گا اور صورت یہ ہوگی کہ گویا اس مذکورہ چیز کے سوا کوئی اور چیز ہی نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کفارہ یمین میں غلام آزاد کرنے کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کی صورت اختیار کرلے تو یہی بات اس کے لیے کفارہ بن جائے گی اور یوں سمجھا جائے گا کہ گویا دیگر امور سرے سے تھے ہی نیہں۔ اس طرح کفارہ کی دیگر صورتوں کی فرضیت کا حکم ساقط ہوجائے گا۔ یہی کیفیت مقتول کے ولی کی ہے۔ اگر اسے قصاص یا مال میں سے ایک چیز لینے کی تخییر حاصل ہوتی اور پھر وہ ان میں سے ایک چیز اختیار کرلیتا تو دو میں سے ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اختیار کرلینے پر عافی کے اسم کا مستحق نہ ہوتا۔ ہماری اس وضاحت سے جب ولی سے مذکور صورت کے اندر عفو کا اسم منقفی ہوگیا تو پھر آیت کی اس مفہوم پر تاویل جائز نہ رہی اور ہماری مذکورہ تاویلات اولیٰ ہوگئیں۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے ، قتلِعمد کی صورت میں ولی کے لیے واجب ہونے والا امر یا تو قصاص اور دیت دونوں ہوں گے، قصاص ہوگا دیت نہیں ہوگی، یا ان دونوں میں سے تخییر کے طور پر ایک چیز ہوگی۔ پہلی صورت تو بالاتفقا جائز نہیں ہے، یعنی ولی کو دونوں چیزیں حاصل کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ یہ بھی جائز نہیں ہے کہ ولی کے اختیار کے مطابق ان میں سے ایک چیز واجب ہوجائے جیسا کہ کفارہ یمین وغیرہ میں ہوتا ہے کیونکہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب میں جو چیز واجب کی ہے وہ قصاص ہے اور اگر قصاص اور غیر قصاص کے درمیان تخییر کا اثبات کردیا جائے تو اس سے نص میں اضافہ نیز قصاص کے ایجاب کی نفی لازم آئے گی اور اس جیسی بات ہمارے نزدیک نسخ کی موجب ہوتی ہے جب دونوں صورتیں غلط ثابت ہوگئیں تو اب واجب ہونے والا امر قصاص ہی ہوگا۔ اس لیے قاتل کی رضا مندی کے بغیر مال، یعنی دیت وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اگر ایک شخص کا کسی پر حق ہو جس کی وصولی اس سے ممکن ہو تو پھر اس حق کو اس کے بدل کی طرف منتقل کردینا جائز نہیں ہوگا، اِلا یہ کہ حقدار اس بات پر رضا مند ہوجائے۔ علاوہ ازیں اس قول کے قائل کا کہنا بھی درست نہیں ہے کہ واجب تو قصاص ہے لیکن اسے مال لینے کا بھی اختیار ہے۔ کیونکہ یہ قول ولی کو قصاص لینے کے سلسلے میں تخییر کے دائرے سے خارج نہیں کرے گا کیونکہ اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ ولی کو اختیار ہوگا کہ اگر چاہے تو قصاص لے لے اور اگر چاہے تو مال وصول کرلے۔ اور یہ قول کسی قائل کے اس قول کے مترادف ہے کہ ” واجب تو مال ہے لیکن ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ اس وجوب کو قصاص کی طرف بدل کے طور پر منتقل کر دے “ جب تخییر کے ایجاب کی وجہ سے قائل کا یہ قول فاسد قرار پائے گا تو درج بال قائل کا یہ قول بھی فاسد ہوگا کہ ” واجب تو قصاص ہے، لیکن ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس وجوب کو مال کی طرف منتقل کر دے “ کیونکہ دونوں حالتوں کے اندر قتل عمد کی بنا پر تخییر کا ایجاب اپنی جگہ باقی رہے گا، جبکہ اللہ سبحانہ نے قاتل پر صرف قصاص فرض کیا ہے۔ ارشاد ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی اللہ سبحانہ نے یہ نہیں فرمایا : قتل کے مقدمات میں تم پر مال فرض کردیا گیا ۔ یا قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص یا مال فرض کردیا گیا ۔ اس بنا پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ واجب تو قصاص ہے لیکن ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس وجوب کو مال کی طرف منتقل کر دے تو وہ تخییر کا نام لیے بغیر ولی کے لیے تخییر واجب کر دے گا۔ اس بنا پر اس کا یہ قول اور اس کی یہ تعبیر خطا اور غلطی پر مبنی ہوگی۔ اگر کوئی شخص کہے کہ درج بالا قول تو بعینہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں کہ : واجب تو قصاص ہے، لیکن ولی اور قاتل دونوں کو اختیار ہے کہ باہمی رضامندی سے اس وجوب کو مال کی طرف منتقل کردیں۔ باہمی رضا مندی سے ایسا کرنے کے جواز کے اندر آیت کے حکم کے موجَب یعنی قصاص کا اسقاط لازم نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے ابتدا میں یہ واضح کردیا ہے کہ قصاص قاتل پر مقتول کے ولی کا حق ہے اور اس کے لیے قصاص اور مال کے درمیان تخییر ثابت نہیں ہے۔ اب اگر طرفین باہمی رضا مندی سے مذکورہ حق کو بدل کر مال کی طرف منتقل کردیں تو یہ بات قصاص کو اس امر سے خارج نہیں کرے گی کہ وہی اور صرف وہی واجب حق ہے کوئی اور چیز نہیں۔ اس لیے کہ جس چیز کے حکم کا تعلق ان دونوں کی باہمی رضا مندی کے ساتھ ہوجائے گا وہ اس اصلی حق پر اثر انداز نہیں ہوگی جو تخییر کے بغیر واجب تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص کسی غلام یا مکان کا مالک ہوتا ہے اور دوسرے شخص کے لیے مالک کی رضا مندی سے مذکورہ غلام یا مکان خرید لینے کا جواز ہوتا ہے۔ اس اختیار اور جواز کے اندر پہلے مالک کی اصلی ملکیت کی نفی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بات اس امر کی موجب بن جاتی ہے کہ اس کی ملکیت خیار یعنیی تخییر پر موقوف ہوجائے۔ اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مالک ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہ اس سے خلع کرلینے اور طلاق کا بدل لینے کا بھی اختیار رکھتا ہے لیکن اس سلسلے میں اسی کے لیے ابتدا ہی سے طلاق کی ملکیت کے اثبات کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اسے طلاق کو مال کی طرف مفتقل کردینے، یعنی خلع کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔ اگر اسے ابتدا ہی سے یہ اختیار ہوتا کہ بیوی کو طلاق دے دے یا اس کی رضامندی کے بغیر مال لے لی یعنی خلع کرلے تو یہ بات اس امر کی موجب بن جاتی ہے کہ وہ دو چیزوں یعنی طلاق یا مال میں سے ایک کا مالک ہے۔ قتل عمد کی بنا پر قصاص ہی واجب ہوتا ہے اس پر حضرت انس ؓ سے مروی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جس کی سند ہم الربیع بنت التصر کے واقعے کے سلسلے میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ جب مذکورہ خاتون نے ایک لونڈی کو طمانچہ مار کر سامنے کا ایک دانت توڑ دیا اور قصاص کا حکم سن کر اس کے بھائی نے اعتراض کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم ہے۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے واضح کردیا کہ اللہ کی کتاب کا موجَب قصاص ہی ہے، اس بنا پر کسی کے لیے قصاص کے ساتھ کسی اور چیز کا اثبات جائز نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ بات جائز ہوگی کہ قصاص کو کسی اور چیز کی طرف منتقل کردیا جائے ۔ یہ بات صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ اس منتقلی کی کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس کے ذریعے کتاب اللہ کے حکم کا نسخ جائز قرار پاتا ہو۔ اگر ہم یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ قول باری : فن عفی لہ من اخیہ شی ہماری بیان کردہ تاویلات کے ساتھ ساتھ اس تاویل کا بھی احتمال رکھتا ہے جس کا دعویٰ ہمارے مخالف حضرات نے کیا ہے کہ قاتل کی رضامندی کے بغیر بھی مقتول کے ولی کے لیے مال، یعنی دیت وصول کرلینا جائز ہے، تو اس صورت میں زیادہ سے زیادہ بات یہی ہوگی کہ آیت میں مذکورہ لفظ عفو ایک مشترک اور کئی معانی کا متحمل لفظ قرار پائے گا اور یہ بات مذکورہ لفظ کے متشابہ قرار پانے کی موجب بن جائے گی۔ جب کہ دوسری طرف یہ واضح ہے کہ قول باری : کتب علیکم القصاص ایک محکم آیت ہے جس ک معنی ظاہر اور جس کی مراد بین اورو اضح ہے، نیز جس کے الفاظ میں کوئی اشتراک نہیں ہے اور جس کی تاویل میں کوئی احتمال نہیں۔ ادھر متشابہ کا حکم یہ ہے ک ہ اسے محکم پر محمول کیا جائے اور اسے محکم ہی کی طرف لوٹایا جائے، چناچہ ارشاد باری ہے : منہ ایات محکمات ھن ام الکتب واخر متشابھا فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبون ماتشا بہ منہ ابتغاء الفتنۃ و ابتغاء تاویلہ ( اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں) اس آیت میں اللہ سبحانہ نے متشابہ کو محکم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے۔ اس یے کہ اس کی طرف سے محکم کو اس صفت سے موصوف کرنا کہ یہ کتبا کی اصل بنیاد ہیں اس امر کا مقتضی ہے ک غیر محکم یعنی متشابہ محکم پر محمولے اور اس کے معنیی اس پر معطوف ہیں۔ کیونکہ ایک چیز اُم یعنی اصل بنیاد وہ ہے جس سے اس چیز کو ابتدا ہوئی ہو اور اس کی طرف اس کا مرجع ہو۔ پھر اللہ سبحانہ نے مذکورہ آیت میں ان لوگوں کی مذمت فرمائی جو متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور اسے محکم کی طرف لوٹائے بغیر اور محکم کے معنی کی موافقت پر اسے محمول کیے بغیر صرف اس تاویل پر اکتفا کرلیتے ہیں جس کا احتمال اس کے لفظ میں موجود ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ سبحانہ نے یہ حکم عائد کردیا کہ ان دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری : کتب علیکم القصاص محکم آیت ہے اور قول باری : فمن عفی لہ من اخیہ شی متشابہ ہے تو اس کے معنی کو محکم کے معنی پر اس طرح محمول کرنا واجب ہوگیا کہ نہ تو محکم کے معنی کی مخالفت ہو اور نہ ہی اس کے حکم کے کسی جُز کا ازالہ ہو۔ یہ بات صرف ان تاویلات میں سے کسی ایک کے ذریعے ہوسکتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ تاویلات آیت کے لفظ کے موجَب ، یعنی قصاص کی نفی نہیں کرتیں اور نہ ہی اسے کوئی اور معنی پہناتی ہیں۔ ان تاویلات میں قصاص سے کسی اور بات کی طرف عدول بھی نہیں ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : فمن اعتدی علیکم فاعتد و علیہ بمثل مااعتدی علیکم ( جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے تمہارے ساتھ کی ہے) اس آیت کی رو سے اگر جان کا ضیاع ہوجائے تو مقتول کا ولی جس مثل کا مستحق ہوگا اور وہ قصاص ہے۔ اگر مذکورہ مثل قصاص اور قاتل کی جان کا اتلاف ہے جس طرح اس نے مقتول کی جان کا اتلاف کیا ہے تو اس صورت میں قاتل کی حیثیت ایسے مال کے متلف جیسی ہوگی جس کی کوئی مثل پائی جاتی ہو۔ اس لیے باہمی رضامندی کے بغیر قصاص ترک کر کے کس اور چیز کی طرف عدول نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے قول باری ہے : بمثل ما اعتدی علیکم نیز اس پر اصول کی بھی دلالت ہے۔ جو حضرات مقتول کے ولی کے لیے قاتل کی رضامندی کے بغیر مال، یعنی دیت وصول کرنے اور قصاص لینے کے درمیان اختیار کا ایجاب کرتے ہیں ان کا استدلال کئی احادیث پر مبنیی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث کی روایت یحییٰ بن کثیر نے ابوسلمہ سے کی ہے۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس کی روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ کے موقعہ پر فرمایا : جس شخص کا کوئی آدمی قتل ہوجائے اسے دو باتوں میں سے ایک بہتر بات کا اختیار ہے یا تو وہ قاتل کو قتل کر دے یا اسے دیت دے دی جائے۔ اسی طرح یحییٰ بن سعید نے ابوزیب سے روایت کی ہے، ان سے سعید المقبری نے بیان کیا کہ میں نے ابو شریح الکعبی کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے فتح مک کے موقعہ پر اپنے خطبے میں فرمایا : قبیلہ خزاعہ والو، تم نے بنو ہذیل کے اس شخص کو قتل کردیا اور میں اس کی دیت دوں گا۔ لیکن میرے اس خطبے کے بعد جس شخص کا کوئی آدمی قتل ہوجائے اس کے اہل کو دو باتوں کے درمیان اختیار ہوگا۔ انہیں اختیار ہوگا اگر چاہیں تودیت وصول کرلیں اور اگر چاہیں تو قاتل کو قتل کردیں۔ اس حدیث کی روایت محمد بن اسحاق نے الحرث بن الفضیل سے کی، انہوں نے سفیان سے، انہوں نے ابوالعرجاء اور انہوں نے ابو شیح الخزاعی سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جس کسی کو قتل یا زخمی کردیا جائے تو اس کے ولی کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہوگا یا تو وہ معاف کر دے یا قصاص لے لے یا دیت وصول کرلے۔ درج بالا احادیث اس بات کی موجب نہیں ہیں جس کا یہ حضرات دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ ان احادیث میں اس مراد کا احتمالے کہ قاتل کی رضامندی سے دیت وصول کی جائے جس طر ح ارشاد باری ہے : فاما منا بعد و اما فداء ( اس کے بعد یا احسان کرنا ہے یا فدیہ ہے) مطلب یہ ہے کہ قیدی کی رضامندی سے فدیہ لیا جائے۔ یہاں مخدوف کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ مخاطبین کو مال کے ذکر کے وقت یہ بات معلوم تھی کہ قیدی پر اس کی رضامندی کے بغیر فدیہ لازم کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی کیفیت حضور ﷺ ک اس ارشاد کی ہے کہ : یا دیت وصول کرلے۔ نیز اس ارشاد کی کہ : یا اسے دیت دے دی جائے۔ نیز جس طرح مقروض قرض خواہ سے کہتا ہے : اگر تم چاہو تو اپنا قرص درہم کی صورت میں وصول کرلو اور اگر چاہو تو دینار کی شکل میں لے لو۔ نیز جس طرح حضور ﷺ نے حضرت بلال ؓ سے اس وقت فرمایا تھا جب و کھجوریں لے کر آپ ﷺ کے پاس آئے تھے : کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح کی ہیں ؟ حضرت بلال ؓ نے جواب نفی میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ : لیکن ہم اس کھجور کا ایک صاع ( ایک پیمانے کا نام) عام کھجوروں کے دو صاع کے بدلے اور اس کے دو صاع تین صاعوں کے بدلے میں لیتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ایسا نہ کرو تا ہم تم اپنی کھجوریں کسی عرض (سامان وغیرہ) کے بدلے فروخت کرو اور پھر اس سامان کے بدلے یہ کھجوریں لے لو۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آپ ﷺ نے یہ ارادہ نہیں فرمایا کہ حضرت بلال ؓ متعلقہ دوسرے شخص کی رضا مندی کے بغیر سامان کے بدلے کھجوریں لے لیں۔ درج بالا احادیث میں آپ ﷺ کی طرف سے دیت کا ذکر اس امر پر محمول ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے ذریعے واضح کردیا کہ بنی اسرائیل پر قاتل کی رضامندی کے بغیر دیت نہ لینے کا جو حکم عائد تھا سے اللہ سبحانہ نے اس امت پر تخفیف کی غرض سے منسوخ کردیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم نافذ تھا لیکن دیت کا حکم نہیں تھا، پھر اللہ سبحانہ نے اس امت سے اس حکم میں تخفیف کردی۔ دیت لینے سے مراد یہ ہے کہ یہ دیت قاتل کی رضامندی سے لی جائے ، ہماری اس بات پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جسے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ عنہ سے انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کا کوئی آدمی قتل ہوجائے اسے دو باتوں میں سے ایک بہتر بات کا اختیار ہوگا یا تو وہ قاتل کو قتل کر دے یا فدیہ پر تصفیہ کرلے، مفاداۃ ( فدیہ یا دیت پر تصفیہ) دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جس طرح مقاتلہ، مضاربہ اور مشاتمہ وغیر دو افراد کے درمیان وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ حضور ﷺ کی درج بالا تمام احادیث میں مراد یہ ہے کہ قاتل کی رضا مندی سے دیت کا معاملہ طے کیا جائے۔ یہ حدیثیں ان حضرات کے قول کو باطل کردیتی ہیں جو کہتے ہیں کہ قاتل پر جو چیز واجب ہے وہ تو قصاص ہے اور ولی کو اختیار ہے کہ وہ اس قصاص کو دیت کی صورت میں منتقل کر دے، کیونکہ ان تمام احادیث میں قتل عمد کے ولی کے لیے قصاص اور دیت لینے کے درمیان تخییر کا اثبات ہے۔ اگر چہ واجب قصاص ہی ہے۔ البتہ قصاص کے ثبوت کے بعد ولی کو اسے دیت کی طرف اسی طرح منتقل کرنے کا حق ہوگا جس طرح دین کو اس کے عوض کے طور پر عرض کی طرف اور عرض کو اس کے عوض کے طور پر دین کی طرف منتقل کردیا جاتا ہے، مذکورہ احادیث میں کسی ایسے خیار کا ذکر نہیں جو نفس قتل کا موجب بنتا ہو، بلکہ واجب تو ایک ہی چیز ہوتی ہے اور وہ ہے قصاص۔ اس لیے جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ قتل عمد کے نتیجے میں قصاص کا ایجاب ہوتا ہے کسی اور چیزکا نہیں تا ہم ولی اس قصاص کی دیت کی طرف منتقل کرسکتا ہے ان کا یہ قول مذکورہ بالا احادیث کے خلاف ہے۔ الانصاری نے حمید الطویل سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے الربیع بنت النضر کے واقعہ کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمیا تھا کہ : اللہ کی کتاب میں اس کی طرف سے مرر کردہ فرض قصاص ہے۔ آپ کا یہ ارشاد اس امر کے منافی ہے کہ کتاب یعنی فرض سے مراد مال یا قصاص ہے۔ علقمہ بن وائل نے اپنے والد سے اور ثابت البنانی نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو قتل کردیا۔ حضور ﷺ نے قاتل کو مقتول کےوی کے حوالے سے کرد یا اور پھر پوچھا۔ کیا تم معاف کرتے ہو ؟ اس نے نفی میں جواب دیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے پھر پوچھا : کیا تم دیت لیتے ہو ؟ اس نے جواب بھی نفی میں دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یاد رکھو، اگر اسے قتل کرو گے تو تم بھی اس کی مثل ہو جائو گے۔ وہ شخص چلا گیا۔ لوگ اس کے پیچھے گئے اور اس سے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر تم اسے قتل کرو گے تو تم بھی اس کی مثل ہو جائو گے۔ یہ سن کر اس شخص نے قاتل کو معاف کردیا، اس حدیث سے قصاص اور مال کے درمیان خیار کا ایجاب کرنے والے حضرات سے استدلال کیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں ان کے قول پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ حضور ﷺ کی مراد یہ ہو کہ ولی قاتل کی رضامندی کے ساتھ دیت وصول کرلے۔ جس طرح آپ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کی بیوی سے اپنے شوہر کے خلاف شکوہ و شکایت کرنے پر فرمایا تھا : کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ تم اسے وہ باغ دے کر طلاق لے لو جو اس نے تمہیں مہر میں دیا تھا ۔ اور بیوی نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔ ی بات تو واضح ہے کہ اس سلسلے میں حضرت ثابت ؓ کی رضا مندی شرط تھی، اگرچہ یہ بات آپ ﷺ کے ارشاد میں مذکور نہیں کیونکہ حضور ﷺ حضرت ثابت ؓ پر ان کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی بات نیز باغ ان کی ملکیت میں دینے کا معاملہ لازم کرنے والے نہیں تھے۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے ی قصد کیا ہو کہ مقتول کا ولی کسی مال پر کوئی سمجھوتہ کرلے۔ اس صورت میں مذکورہ عقد قاتل کی رضامندی پر موقوف ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے پاس سے دیت دینے کا ارادہ کیا ہو جس طرح فتح مکہ کے موقعہ پر مکہ میں بنو خزاعہ کے ایک فرد کے ہاتھوں قتل ہوجانے والے شخص کی دیت اپنے پاس سے ادا کی تھی۔ اور جس طرح آپ ﷺ نے یہود کی طرف سے عبداللہ بن سہیل کی دیت برداشت کی تھی جو خیبر میں مقتول پائے گئے تھے۔ مذکورہ بالا حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد : ” اگر تم اسے قتل کرو گے تو تم اس کی مثل ہو جائو گے “ دو معنوں کا احتمال رکھتا ہے۔ ایک معنی تو یہ ہے کہ تم بھی قاتل قرار پائو گے جس طرح یہ قاتل ہے، لیکن یہاں یہ معنی نہیں کہ گناہ کے اندر تم بھی اس کی طرح ہو جائو گے، کیونکہ قاتل کو قتل کردینے کی صورت میں مذکورہ ولی اپنا حق وصول کرتا اور اس لیے وہ ملامت کا مستحق نہ ہوتا۔ جبکہ قاتل قتل کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے وہ قابل تعزیر ٹھہرتا ہے ۔ اس لیے آپ نے یہ مراد نہیں لی تھی کہ گناہ میں تم اس کی مثل ہو جائو گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اسے قتل کر دو ۔ تو تم اپنا حق وصول کرلو گے اور اس پر تمہیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردینے کی ترغیب دے کر فضیلت کی بات فرمائی ہے۔ ارشاد ہوا : فمن تصدق بہ فھوا کفارۃ لہ ( جو شخص قصاص کا صدقہ کر دے تو اس کا یہ فعل اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا) اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب قاتل پر انی جان زندہ رکھنا لازم ہے تو ضروری ہے کہ وہ ولی کو مقتول کی دیت ادا کر کے قصاص سے اپنی جان بچا لے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ جب کسی کی جان خطرے میں دیکھے تو اسے بچا لے ، مثلاً کوئی شخص کسی کو دیکھے کہ اس نے کسی کی جان لینے کا قصد کرلیا ہے، یا کوئی شخص کسی کو پانی میں ڈوبتا دیکھے اور اس کے لیے اسے بچا لینا ممکن ہو، یا ایک شخص کے پاس طعام ہو اور وہ کسی کو بھوک سے مرتا دیکھ لے تو اس پر لازم ہوگا کہ کھانا کھلا کر اسے بچا لے، اسی طرح قاتل پر مال دے کر اپنی جان بچانالازم ہے تو پھر ولی پر بھی اسے زندہ رکھنا لازم ہوگا۔ اس مفروضے پر ضروری ہوجائے گا کہ قاتل اگر دیت کے طور پر مال خرچ کرنا چاہے تو ولی کو مذکورہ مال لینے پر مجبور کردیا جائے ۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یہ بات سرے سے قصاص کے بطلان کی باعث بن جائے گی۔ اس لیے کہ جب قاتل اور ولی دونوں پر قاتل کو زندہ رکھنا لازم ہوجائے گا، تو دونوں کا مال لینے اور قصاص ساقط کرنے پر رضا مند ہوجانا ضروری ہوگا۔ نیز اس صورت میں اگر ولی قاتل کے مکان، یا اس کے غلام ، یا دیت کی کثیر مقدار کا مطالبہ کر دے تو قاتل کے لیے مناسب یہی ہوگا کہ وہ اس کی ادائیگی کر دے۔ لیکن دوسری طرف اس قول کے قائلین کے نزدیک قاتل پر دیت کی مقدار سے زائد مال دینا لازم نہیں ہوتا جس سے ان حضرات کے استدلال کا کھوکھلاپن نیز ان کی تعلیل کا انتقاض اور اس کا فساد واضح ہوجاتا ہے۔ زیر بحث مسئلے میں الزنی نے امام شافعی کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی حد فذف یا کفالہ بالنفس کے سلسلے میں ایک مال پر مصالحت کرلے تو اس صورت میں حد اور کفالہ دونوں باطل ہوجائیں گے اور مذکورہ شخص کسی چیز کا مستحق نہیں ہوگا اور جمہور کا اتفاق ہے کہ قتل عمد کے سلسل میں مال پر صلح کرلے تو اسے قبول کرلیا جائے گا۔ یہ بات اس ممر پر دلالت کرتی ہے کہ دم عمد اصل میں مال ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا استدلال غلطی اور مناقضہ پر مشتمل ہے۔ خطا تو یہ ہے کہ صلح کی وجو سے حد باطل نہیں ہوتی اور مال باطل ہوجاتا ہے۔ کفالہ بالنفس کے سلسلے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق مال بھی باطل نہیں ہوتا اور دوسری روایت کے مطابق باطل ہوجاتا ہے۔ رہ گیا مناقضہ تو اس کی صورت یہ ہے کہ جمہور کے مطابق طلاق پر مال لینا جائز ہے اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ طلاق اصل کے اعتبار سے مال نہیں ہے، نیز یہ کہ شوہر کو حق نہیں کہ وہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس پر طلاق کے بدلے مال لازم کر دے۔ المزنی کی حکایت کے مطابق امام شافعی کے نزدیک محجور علیہ ( ایسا شخص جس کے تصرفات پر پابندی لگی ہو) اگر قتل عمد میں قاتل کو معاف کر دے تو اس کا یہ عفو جائز ہوگا۔ اس لیے کہ عمد کے اندر مال کی ملکیت صرف مجنی علیہ ( وہ شخص جس کے خلاف جنایت کا ارتکاب کیا گیا ہو) کی مرضی اور اختیار سے ہوتی ہے۔ اگر دم عمد اصل کے اعتبار سے مال ہوتاے تو اس میں قرض خوار ہوں اور اصحاب وصایا کا حق بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ امام شافعی کے نزدیک عمد کا موجب قصاص ہی ہے۔ نیز اس امر کا بھی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ولی کے لیے قتل اور دیت کے درمییان خیار کو واجب نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قول باری : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ طریقے سے قتل ہوجائے ہم نے اس کے ولی کو قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے) مقتول کے ولی کے لیے قصاص اور مال لینے کے درمیان خیار کو واجب کرتا ہے، اس لیے کہ لفظ سلطان کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مظلومانہ طور پر قتل کی بعض صورتوں میں دیت واجب ہوتی ہے جس طر ح شبہ عمد کے تحت قتل ہونے والے شخص کے سلسلے میں دیت کا وجوب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو اس مقتول کی بھی دیت واجب ہوگی۔ جبکہ بعض صورتوں میں قصاص واجب ہوتا ہے۔ یہ بات اس امر کی متقضی ہے کہ آیت میں سب باتیں یعنی قصاص، دیت اور عفو مراد لی جائیں کیونکہ آیت میں مذکورہ لفظ ان سب باتوں کا احتمال رکھتا ہے۔ الضحاک بن مزاحم نے اس آیت کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ولی اگر چاہے تو قاتل کو قتل کر دے اور اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو دیت وصول کرلے۔ جب آیت کا لفظ سلطان ان تینوں باتوں کا احتمال رکھتا ہے تو مال لینے کے اندر ولی کے سلطان یعنی حق کا اثبات اسی طرح واجب ہے جس طرح قصاص لینے میں، کیونکہ اس اس کا وقوع ان دونوں پر ہوتا ہے ، نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک حالت کے اندر دونوں میں سے ہر ایک اللہ کی مراد ہے۔ اس صورت میں آیت کے الفاظ کچھ اس طرح ہوں گے : اور جو شخص مظلومانہ طورپ ر قتل ہوجائے اس کے ولی کو ہم نے قصاص اور دیت کے مطالبے کا حق دیا ہے۔ پھر جب اس امر پر سب کا اتفقا ہے کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت واجب نہیں ہوتیں تو ضروری ہے کہ ان کا وجوب تخییر کے طور پر ہو۔ نیز جس طرح آپ نے قول باری : فقد جعلنا لبولیہ سلطانا سے اس بنا پر قصاص کے ایجاب پر استدلال کیا ہے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ قصاص مراد ہے، یعنی قصاص گویا منصوص علیہ ہے اور آپ نے لفظ سلطان کو لفظ قصاص کے عموم کی طرح قرار دیا ہے ، تو یہی طریق کار مال کے اثبات کے سلسلے میں لازم ہے۔ کیونکہ ہم ایسے مقتولین بھی پاتے ہیں جن کے ولی کا سلطان یعنی حق مال ہی ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ قول باری کو قصاص پر محمول کرنا دیت پر محمول کرنے سے اولیٰ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطان ایک مشترک لفظ ہے اور کئی معانی کا احتمال رکھتا ہے اس لیے یہ آیت متشابہ کے حکم میں ہے اور اسے محکم کی طرف لوٹانا اور محکم کے معنی پر محمول کرنا واجب ہے۔ یہ محکم قصاص کے ایجاب کے سلسلے میں ایک محکم آیت کی صورت میں ہے ، یعنی یہ قول باری : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( قتل کے مقدمات کے سلسلے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ) اس سے ضروری ہوگیا کہ جس طور پر زیر بحث آیت میں مذکور لفظ سلطان سے قصاص مراد ہے، اسی طرح اس کے معنی کو بھی محکم آیت، یعنی مذکورہ بالا آیت کے معنی پر محمول کیا جائے۔ اس محکم آیت میں ایجاب قصاص کا ذکر ہے۔ دوسری طرف ہمارے معترض کے پاس قاتل عمد پر مال کے ایجاب کے لیے کوئی محکم آیت موجود نہیں ہے کہ جس پر زیر بحث متشابہ آت کو محمول کیا جاسکے۔ اس کے نتیجے میں اب یہ بات واجب ہوگئی کہ سلطان کے اسم کو قصاص پر محمول کرنے پر اقتصار کیا جائے۔ مال پر محمول نہ کیا جائے ۔ کیونکہ یہ معنی اس محکم آیت کے معنی کے ساتھ موافقت رکھتا ہے جس میں کوئی اشتراک اور تشابہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے آیت کو دیت یا قصاص میں سے ایک چیز لینے پر ولی کی تخییر کے معنوں پر محمول کیا ہے اس کے لیے انہوں نے کوئی محکم آیت بنیاد کے طور پر پیش نہیں کی جس پر وہ اس متشابہ آیت کو محمول کرسکیں۔ اس لیے تخییر کا اثبات درست نہیں ہوا کیونکہ لفظ میں صرف اس کا احتمال ہے۔ زیر بحث آیت کے مضمون اور اس کے تسلسل میں ایسی بات موجود ہے جو پتہ دیتی ہے کہ قصاص مراد ہے۔ قول باری ہے : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسوف فی القتل، انہ کان منصورا ( اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالقے کا حق دیا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے) اس سے قتل میں حد سے گزر جانا مراد ہے بایں طور کہ مقتول کا ولی قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کر دے یا قاتل کا مثلہ کر کے ( ناک، کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر) اسے قتل کرے، اذیت دے دے کر اس کی جان لے۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ لفظ سلطن سے قصاص مراد ہے، نیز جب یہ ثابت ہوگیا کہ مذکورہ آیت میں قصاص مراد ہے، تو اب مال مراد لینا منتفی ہوگیا کیونکہ اگر قصاص کے ساتھ مال بھی مراد ہوتا تو ایک ہی حالت کے اندر یہ دونوں باتیں واجب ہوتیں، تخییر کے طر پر واجب نہ ہوتیں کیونکہ آیت میں تخییر کا ذکر نہیں ہے اور جب دونوں باتیں مراد لینا ممتنع ہوگیا جبکہ دوسری طرف قصاص ہی لا محالہ مراد ہے، تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ مال مراد نہیں ہے، نیز یہ ک مظلومانہ طیریقے سے قتل ہونے والی بعض مقتولین کے سلسلے میں دیت وصول کرنے کے حکم کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، واللہ اعلم عاقلہ کی طرف سے قتل عمد کی دیت اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شیاتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان ( ہاں اگر کس قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خونبہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خونبہا ادا کرے) ہم نے ان حضرت کی اس تاویل کا پہلے ذکر کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ بعض اولیا قصاص میں اپنے حصے معاف کردیں اور باقی ماندہ اولیاء کے حق میں بدیت کا وجوب ہوجائے ، کیونکہ لفظ میں اس مفہوم کا احتمال موجود ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جس قاتل کا پورا قصاص معاف نہ کیا گیا ہو اس پر باقی ماندہ اولیاء کے لیے دیت کی ادائیگی کا وجوب اس کے مال میں ہوگا۔ اسی طرح ہر وہ قتل عمد جس میں قصاص نہیں ہے اس کی دیت کا وجوب جانی یعنی قاتل کے مال میں ہوگا، مثلاً باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے یا وہ زخم جو جان لیوا نہ ہو، لیکن اس میں قصاص نہ لیا جاسکتا ہو، مثلاً آدھے بازو سے قطع ید، یا و زخم جو ہڈی کو اپنی جگہ سے ہٹا دے یا وہ زخم جو پیٹ کے اندر تک پہنچ جائے۔ اگر عامد اور مخطی دونوں مل کر کسی کو قتل کردیں تو عامد پر نصف دیت اس کے مال کے اندر واجب ہوگی اور مخطی کی عاقلہ پر نصف دیت لازم ہوگی۔ ہمارے اصحاب ، عثمان المبتی ، سفیان ثوری، اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ دیت عاقلہ پر لازم ہوگی۔ امام مالک کا یہی آخری قول ہے۔ ابن القاسم نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کسی کا دایاں ہاتھ کاٹ دے اور قاتل کا دایاں ہاتھ نہ ہو تو ہاتھ کی دیت قاطع کے مال میں لازم ہوگی اور اور پر اس دیت کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ دیت مجرم کے مال میں واجب ہوگی، اگر اس کے مال سے دیت کی ادائیگی پوری نہ ہو و اسے اس کی عاقلہ پر ڈالا جائے گا۔ اسی طرح اگر بیوی اپنے خاوند کو قتل کر دے اور یہ قتل عمد ہو جبکہ شوہر سے بیوی کی اولاد تھی ہو، تو شوہر کی دیت بیوی کے مال پر واجب ہوگی، اگر اس کے مال سے دیت کی ادائیگی نہ ہو سکے تو یہ اس کی عاقلہ پر ڈال دی جائیگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں درج بالا آیت اس مفہوم کے ادا کرنے میں بالکل واضح ہے کہ دمِ عمد پر صلح نیز بعض اولیاء کی طرف سے قاتل کو معاف کردینے کی بنا پر قصاص کا سقوط جانی یعنی قاتل کے مال میں دیت کو واجب کردیتے ہیں۔ ارشاد باری ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شی اس میں قاتل مراد ہے، اگر مفہوم یہ ہے کہ بعض اولیا کی طرف سے قاتل کو معاف کردیا جائے پھر فرمایا :اتباع بالمعروف یعنی ولی قاتل کا پیچھا کرے۔ پھر مایا : واداء الیہ باحسان یعنی قاتل کی طرف سے ادئیگی ۔ یہ بات قاتل کے مال میں دیت کی ادائیگی کے وجوب کی مقتضی ہے۔ اسی طرح ان حضرات کی تاویل بھی قاتل کے مال میں ادائیگی کے وجوب کی مقتضی ہے۔ جنہوں نے آیت کو صلح کو مال پر باہمی رضا مندی کے معنوں پر محمول کیا ہے کیونکہ آیت میں عاقلہ کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ اس میں صرف ولی اور قاتل کا ذکر ہوا ہے۔ ابن ابی الزناد نے اپنے والد سے، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انہوں نے حصرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : عاقلہ کی طرف سے نہ تو قتل عمد کی ، نہ غلام کی، نہ صلح کی اور نہ ہی اعتراف کی دیت بھری جائے گی۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی ہے، ان سے احمد بن الفضل الخطیب نے ، ان سے اسماعیل بن موسیٰ نے ان سے شریک نے جابر بن عامر سے کہ مسلمانوں نے اس پر اتفاق کرلیا ہے کہ وہ نہ تو کسی غلام کی دیت بھریں گے، نہ قتل عمد کی، نہ ہی صلح کی اور نہی اعتراف کی۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے، قتادہ بن عبداللہ امدلحی کے واقعے کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے کہ جنہوں نے اپنے بیٹے کو قتل کردیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے قتادہ پر سو اونٹ کی ادائیگی کا حکم جاری کردیا تھا اور یہ اونٹ مقتول کے بھائیوں کو دے دئیے تھے۔ قاتل باپ کو ان اونٹوں میں سے کسی چیز کا وارث قرار نہیں دیا تھا۔ جب جان کے سلسلے میں یہ صورت ثابت ہوگئی اور اس معاملے میں کسی صحابی نے حضرت عمر ؓ کی مخالفت نہیں کی تو اس سے معلوم ہوگیا کہ جان سے کم تر جرم میں قصاص ساقط ہونے کی صورت میں بھی یہی حکم ہوگا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا قتل عمد میں عاقلہ پر دیت نہیں، ان پر صرف قتل کی دیت ہے، عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ صلح کی بنا پر جو مال واجب ہوجائے اس کی ادائیگی کی ذمہ داری خاندان پر نہیں ہوگی الا یہ کہ خاندان اس پر رضا مند ہوجائے۔ قتادہ نے کہا ہے کہ ہر ایسا جرم جس کا قصاص نہ لیا جاسکتا ہو اس کی دیت مجرم کے مال میں لازم ہوگی۔ امام ابو حنییفہ نے حماد سے اور انہوں نے ابراہیم نجعی سے روایت بیان کی ہے کہ عاقلہ کی طرف سے نہ تو صلح کی دیت بھری جائے گی نہ عمد کی اور نہ اعتراف کی ۔۔۔۔۔۔ قول باری ہے : ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب ( عقل و خرد رکھنے والو تمہارے لیے قصاص میں زندگی کا سامان ہے) اس آیت میں اللہ سبحانہ، نے بتادیا کہ قصاص کے ایجاب میں لوگوں کی زندگی اور ان کی بقاء کا سامان ہے اس لیے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرے گا اسے اس ارادے سے یہ بات باز رکھے گی کہ قصاص میں خود اسے قتل ہونا پڑے گا۔ آیت سے اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ قصاص کے وجوب کا حکم آزاد اور غلام ، مرد اور عورت مسلمان اور ذمی سب کے لیے عام ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ ، قصاص کے ذریعے سب کی زندگیوں کی بقا چاہتا ہے۔ اس بنا پر دو آزاد مسلمانوں کے درمیان قصاص کی موجب علت مذکورہ بالا افراد کے اندر بھی موجود ہوتی ہے اس لیے ان سب کو اس حکم کے اندر یکساں درجے پر رکھنا واجب ہے۔ آیت میں مذکورہ خطاب کی عقل و خرد رکھنے والوں کے ساتھ تخصیص حکم کے اندر دیگر افراد کی یکسانیت کی نفی نہیں کرتی، اس لیے کہ جس علت کی بنا پر عقل و خرد رکھنے والوں پر قصاص کا حکم عائد ہوا ہے وہ علت دیگر افراد کے اندر بھی موجود ہوتی ہے اور خطاب کی ان کے ساتھ تخصیص صرف اس بنا پر ہے کہ عقل و خرد کے مال افراد ہی اس چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس کا انہیں مخاطب بنایا جاتا ہے، یہ بات اس قول باری کی طرحے : انما انت منذر من یخشا ھا ( آپ ﷺ تو صرف ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو قیامت سے ڈرتے ہوں) حالانکہ آپ ﷺ جملہ مکلفین کے لیے منذر تے۔ آپ اس قول باری کو نہیں دیکھتے : ان ھوا الا نذیر لکھ بین یدی عذاب شدید ( وہ تو صرف تمہیں ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والے ہیں) اسی طرح یہ قول باری ہے : ھدی للمتقین ( یہ کتاب متقیوں کے لیے ہدایت ہے) حالانکہ یہ سب کے لیے ہدایت ہے متقین کی اس لیے تخصیص کردی گئی کہ یہی لوگ اس کتاب ہدایت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک اور آیت میں ارشاد باری کو دیکھیے : شھر رمضان الدین انزل فیہ القرآن ھدی للناس ( رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن تمام لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر نازل کیا گیا) اس آیت میں قرآن کی ہدایت کو سب کے لیے عام کردیا گیا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : قالت انی اعوز بالرحمن منک ان کنت تقیا ( مریم (علیہ السلام) نے کہا : میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو تقی ہے) تقی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ کی پناہ مانگنے والے کو پناہ دے۔ ایک حکیم یعنی دانا شخص سے منقول ہے کہ بعض کو قتل کردینا سب کو زندہ رکھنا ہے۔ ایک اور حکیم سے منقول ہے کہ ” قتل قتل کو کم کردیتا ہے، اس لیے زیادہ قتل کرو، تا کہ قتل کم ہوجائے “۔ عقلا اور حکما کی زبان پر یہ باتیں عام ہیں۔ ان سب کا مقصد وہ مفہوم ہے جو قول باری : و ککم فی القصاص حیوۃ کے ذریعے ادا ہوا ہے۔ اگر آپ کلام باری اور اقوال حکماء کے درمیان موازنہ کریں تو بلاغت اور صحت معنی کی جہت سے دونوں کے مابین زیردست تفاوت پائیں گے۔ یہ بات کئی وجوہ سے بادنیٰ تامل واضح ہوجاتی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری : فی القصاص حیوۃ حکما کے اس قول کی نظیر ہے کہ بعض کا قتل سب کے لیے زندگی ہے اور قتل قتل کو کم کردیتا ہے۔ مذکورہ قول باری حکماء سے منقولہ اقوال کی بہ نسبت تعداد میں کم حروف پر مشتمل ہونے کے باوجود اس معنی کی ادائیگی کر رہا ہے جس کی ضرورت ہے اور جس سے کلام کا استغناء نہیں ہے۔ یہ بات حکماء کے درج بالا قول میں نہیں ہے کیونکہ قول باری میں قتل کا ذکر قصاص کے ذکر کے ضمن میں ہوگیا ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ غرض بھی بیان ہوگئی جس کی خاطر قصاص کا ایجاب ہوا ہے۔ حکماء کے اقوال کو اگر حقیقت پر محمول کیا جائے تو ان کے معنی درست نہیں ہوں گے اس لیے کہ ہر قتل کی یہ حاصیت نہیں ہوتی ، بلکہ قتل کے بعض واقعات ظلم اور فساد پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے حکماء کے مذکورہ بالا اقوال کی و حیثیت نہیں ہے جو مذکورہ قول باری کی ہے۔ حکماء کے اقوال کی حقیقت غیر مستعمل ہے اور ان کا مجاز اس بات کے قریبنہ اور بیان کا محتاج ہے کہ کونسا قتل سب کے لیے زندگی کا سامان بنتا ہے۔ اس لیے ان کا کلام بیان کے اعتبار سے ناقص، معنی کے لحاظ سے اختلال پر مبنی اور حکم کے افادہ کے اعتبار سے متفی بالذات نیز خود کفیل نہیں ہے۔ جبکہ قول باری : ولکم فی القصاص حیوۃ مکتفی بالذاب ہے ایک اور جہت سے قول باری : فی القصاص حیوۃ کی حکماء کے اقوال ، قتل قتل کو کم کردیتا ہے اور قتل قتل کو زیادہ روکنے والا ہے۔ پر برتری واضح ہے۔ وہ اس طرح کہ ان کے اقوال میں لفظی تکرار ہے، جبکہ بلاغت کے اعتبار سے مذکورہ لفظ کے سوا کسی اور لفظ سے معنی میں تکرار زیادہ حسین ہوتی ہے ۔ ایک ہی خطا ب میں دو مختلف لفظوں سے ایک معنی کی تکرار تو درست ہوتی ہے لیکن ایک ہی لفظ سے اس کی تکرار درست نہیں ہوتی۔ جس طرح یہ قول باری ہے : وغابیب سودا اور سخت سیاہ ( اسی طرح شاعر کا شعر ہے۔ والفی قولھا کذب و مینا (اور محبوبہ کی بات کذب بیانی اور جھوٹ پائی گئی۔ ) اس مصرعہ میں دو لفظوں کے ذریعے ایک معنی کی تکرار کی گئی ہے ۔ یہ انداز بیان عام تھا۔ لیکن الفاظ کی تکرار ذریعے ایسا انداز بیان درست نہیں۔ قول باری : ولکم فی القصاص حیتوۃ کے اندر لفظی تکرار نہیں ہیجب کہ قاتل کی جہت سے قتل کا مفہوم ادا ہو رہا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قصاص کا تعلق اس صورت میں ہوتا ہے جس کے تحت اس شخص کی طرف سے قتل کا ارتکاب پہلے ہوچکا ہے جس سے اب قصاص لیا جانے والا ہے۔ دوسری طرف حکماء کے مذکورہ اقوال پر نظر ڈالیے۔ ان کے اندر قتل کا ذکر ہے لیکن لفظی تکرار بھی موجود ہے۔ یہ بات ان کے اقوال کی بلاغت میں کمی کا باعث ہے۔ یہ مثال اور اسی طرح کی دیگر مثالیں تالم کرنے والے کی نظروں میں قرآن کی اور اس کے اعجاز کی واضح کردیتی ہیں اور انساین کلام پر اس کی برتری ثابت کردیتی ہیں۔ کیونکہ کلام باری کے اندر تھوڑے سے الفاظ کے ذریعے معانی کثیرہ کے بیان کا جو انداز ہے فصحاء کے کلام میں اس کا دور دور تک وجود نظر نہیں آتا۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)
Top