Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِب : فرض کیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْقِصَاصُ : قصاص فِي الْقَتْلٰي : مقتولوں میں اَلْحُرُّ : آزاد بِالْحُرِّ : آزاد کے بدلے وَالْعَبْدُ : اور غلام بِالْعَبْدِ : غلام کے بدلے وَالْاُنْثٰى : اور عورت بِالْاُنْثٰى : عورت کے بدلے فَمَنْ : پس جسے عُفِيَ : معاف کیا جائے لَهٗ : اس کے لیے مِنْ : سے اَخِيْهِ : اس کا بھائی شَيْءٌ : کچھ فَاتِّبَاعٌ : تو پیروی کرنا بِالْمَعْرُوْفِ : مطابق دستور وَاَدَآءٌ : اور ادا کرنا اِلَيْهِ : اسے بِاِحْسَانٍ : اچھا طریقہ ذٰلِكَ : یہ تَخْفِيْفٌ : آسانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت فَمَنِ : پس جو اعْتَدٰى : زیادتی کی بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
مومنو ! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول کو) پسندیدہ طریق سے (قرارداد کی) پیروی (یعنی مطالبہ خون بہا کرنا) اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے یہ پروردگار کی طرف سے (تمہارے لئے) آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے۔
قصاص کا بیان ارشاد باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے) یہ خود کفیل اور مکتفی بالذات کلام ہے اور اسے اپنے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ما بعد کے کلام کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر صرف اسی فقرے پر اقتصار کرلیا جاتا تو الفاظ سے اس کے مفہوم کی پوری ادائیگی ہوجاتی۔ اس کلام کا ظاہر تمام مقتولین کے اندر اہل ایمان قر قصاص کا مقتضی ہے۔ قصاص کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے جو اس نے دوسرے شخص کے ساتھ کیا ہے۔ یہ لفظ اس قول سے ماحوذ ہے : اقتص اثر فلان ( فلاں شخص نے فلاں شخص جیسا فعل کیا) قول باری ہے : فارتدا علی اثارھما قصصا ( چناچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے) نیز ارشاد ہے : وقالت الاختہ قصیہ ( اور اس نے حضرت موسیٰ کی ماں نے ) اس کی ( حضرت موسیٰ کی) بہن سے کہا : اس کے نقش قدم پر جائو) قول باری : کتب علیکم کے معنی ہیں ” تم پر فرض کردیا گیا “ جس طرح یہ قول باری ہے : کتب علیکم الصیام ( تم پر روزے فرض کر دئیے گئے) نیز : کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیر الوصیۃ للوالدین ( تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آ جائے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو تو والدین کے لیے وصیت کرے) ایک وقت میں وصیت واجب تھی اسی طرح ” صلوات مکتوبات “ سے فرض نمازیں مراد ہیں۔ زیر بحث آیت اہل ایمان پر قصاص کے ایجاب کے حکم پر مشتمل ہے۔ یعنی جب کوئی قتل کا ارتکاب کرے تو اس پر مقتول کا قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ اس حکم میں تمام قسم کے مقتولین شامل ہیں۔ حصوص تو صرف قاتلین میں ہے کیونکہ ان پر قصاص صرف اس وقت فرض ہوگا جب وہ قاتل بنیں گے اس لیے آیت ہر اس شخص پر وجوب قصاص کے مقتضی ہے جس نے کسی آلے کے ذریعے عمداً قتل کا ارتکاب کیا ہو، سوائے ان صورتوں کے جن کی تخصیص کسی شرعی دلیل کی بنا پر ہوئی ہو۔ خواہ مقتول غلام ہو یا ذمی، مذکر ہو یا مونث، کیونکہ آیت میں مذکور ( القتلیٰ ) کا لفظ سب کو شامل ہے ۔ مقتولین کے سلسلے میں اہل ایمان قر قصاص کے ایجاب پر مشتمل خطاب کا رخ ان کی طرف ہونا اس امر کا موجب نہیں ہے کہ مقتولین بھی اہل ایمان ہوں کیونکہ ہم پر تو لفظ کے عموم کا اتباع لازم ہے جب تک خصوص کی دلالت قائم نہ ہوجائے۔ زیر بحث آیت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو بعض مقتولین کے ساتھ حکم کے خصوص کی موجب ہو اور بعض کے ساتھ نہ ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مقتولین کے اعتبار سے حکم میں دو وجوہ سے تخصیص موجود ہے۔ ایک وجہ تو آیت کے تسلسل میں یہ قول باری ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شیاتباع بالمعروف ( ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی ( مقتول کا ولی) کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خونبہا کا تصفیہ ہونا چاہیے ) اور کافر چونکہ مسلمان کا بھائی نہیں ہوتا اس لیے آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ اہل ایمان کے مقتولین کے ساتھ خاص ہے۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے : المحر بالحر و العبد بالعبد والانثی بالانثی ( آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام اور مونث کے بدلے مونث) اس کے جواب میں جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی بات دو وجوہ سے غلط ہے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطاب کا اول حصہ جب سب کو شامل ہے، تو خصوص کے لفظ کے ساتھ اس پر عطف ہونے والا عموم کی تخصیص کا موجب نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : والمطلقات یستربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء ( اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں) آیت کے الفاظ میں تین طلاقوں والی مطلقہ اور تین سے کم والی مطلقہ کے لیے عموم ہے پھر اس پر یہ قول باری عطف ہوا : واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ( اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے والی ہو تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو ) نیز : وبھولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادو اصلاحا ( ان کے شوہر تعلقات درست کرلینے پر آمادہ ہوں تو اس عدن کے دوران میں انہیں اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں) یہ حکم اس مطلقہ کے ساتھ خاص ہے جسے تین سے کم طلاقیں دی گئی ہوں۔ لیکن اس عطف نے تمام مذکورہ مطلقات پر تین قروء کی عدت کے ایجاب کے سلسلے میں لفظ کے عموم کی تخصیص واجب نہیں کی۔ قرآن میں اس کے نظائر بہت زیادہ ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں بھائی کے ذکر سے ارراہ نسب اخوت مراد ہے دین کی جہت سے اخوت مراد نہیں ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ولی عاد اخاھم ھودا ( اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا) جہاں تک قول باری : الحر باحر والعبد یا لعبد والانثی بالانثی ( کا تعلق ہے تو یہ مقتولین کے بارے میں لفظ کے عموم کی تخصیص کا موجب نہیں ہے۔ اس لیے کہ خطاب کا اول حصہ جب مکتفی بالذات ہے تو اس صورت میں ہمارے لیے اسے بعد کے کلام یعنی : الحر الحر میں منحصر کردینا جائز نہیں ہوگا۔ قول باری : الحر بالحر تاکید کے طور پر صرف اس چیز کا بیان ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور اس حال کا ذکر ہے جس کے تحت کلام ظاہر ہوا ہے یہی بات شعبی اور قتادہ نے بھی بیان کی ہے کہ عرب کے دو قبیلوں کے درمیان جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔ ان میں سے ایک قبیلے کا پلہ بھاری تھا انہوں نے کہا کہ : ہم صلح پر صرف اس صورت میں رضامند ہوں گے کہ ہمارے غلام کے بدلے تمہارا آزاد قتل کیا جائے اور ہماری عورت کے بدلے تمہارے مرد کی گردن اڑائی جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : کتب علیکم القصاص فی القتلی، الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی اور اس کے ذریعے اس بات کی تاکید کردی گئی کہ قصاص صرف قاتل پر فرض ہے کسی اور پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا کرنے سے روک دیا، یہی مفہوم اس حدیثر کا ہے جو حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ کے نزدیک تین قسم کے لوگ سب سے بڑھ کر سرکش قرار پائیں گے۔ ایک وہ شخص جس نے قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کیا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے حرم کے اندر قتل کا ارتکاب کیا ہو اور تیسرا و شخص جس نے زمانہ جاہلیت میں پیش آنے والے کسی دشمن اور قتل کا بدلہ لیا ہو “۔ قول باری : الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی ان بعض صورتوں کی تفسیر ہے جن پر زیر بحث آیت کے لفظ کا عموم مشتمل ہے۔ یہ بات مذکورہ لفظ کی تخصیص کی موجب نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ کا ارشاد : گندم کے بدلے گندم برار برابر ۔ نیز اصناف ستہ کا ذکر اس امر کا موجب نہیں ہے کہ ربوٰ کا حکم صرف ان ہی اصناف کے اندر محدود رہے اور ان کے سوادیگر چیزوں سے ربوٰ کی نفی ہوجائے۔ اسی طرح قول باری : الحر باحر لفظ کے اس عموم کی نفی نہیں کرتا جو آیت : کتب علیکم القصاص فی القتلی کے اندر موجود ہے۔ قول باری : الحر بالحر قصاص کے عموم کی تخصیص کا موجب نہیں ہے اور غیر مذکور صورتوں سے قصاص کی نفی نہیں کرتا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے ( سب کا اس مسئلے میں اتفاق ہے) کہ آزاد کے بدلے میں غلام کو اور مرد کے بدلے میں عورت کو قتل کردیا جائے گا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آزاد کے بدلے آزاد کی تخصیص نے تمام مقتولین کے سلسلے میں لفظ کے حکم کے موجب ( حرف جیم کے زیر کے ساتھ ) کی نفی نہیں کی۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قصاص کس طرح مفروض ہوگا جبکہ مقتول کے ولی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو قاتل کو معاف کر دے اور چاہے تو قصاص لے لے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولی پر اسے مفروض نہیں کیا، بلکہ ولی کے لیے اسے قاتل پر فرض کردیا ہے، چناچہ ارشاد ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ( قتل کے مقدمات میں تم پر قصاص کے وجوب کی نفی نہیں کرتی اگرچہ قصاص لینا جس کا حق ہے اسے اس بارے میں اختیار ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت غلام کے قصاص میں آزاد کو، ذمی کے قصاص میں مسلمان کو اور عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردینے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ہم نے پہلے ہی بیان کردیا ہے کہ خطاب کا اول حصہ تمام مقتولین کے سلسلے قصاص کے عموم کے ایجاب کا مقتضی ہے، نیز یہ کہ آزاد کے بدلے آزاد کی اور اس ک ساتھ مذکورہ دیگر افراد کی تخصیص اس امر کی موجب نہیں ہے کہ قصاص کے ایجاب میں ابتدائے خطاب کے عموم کا اعتبار نہ کرتے ہوئے قصاص کے حکم کو صرف ان مذکورہ افراد تک محدود رکھا جائے۔ قصاص کے ایجاب کے عموم کے سلسلے میں زیر بحث آیت کی نظیر یہ آیت ہے۔ ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ قتل ہوگیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے) یہ آیت ان تمام مقتولین کو شامل ہے جنہیں ظلماً قتل کیا گیا ہو ان کے اولیاء کو ایک سلطان، یعنی اختیار دیا گیا ہے، اس سلطان سے مراد قصاص ہے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد اس صورت میں قصاص ہے جب ایک آزاد مسلمان دوسرے آزاد مسلمان کو قتل کر دے، اس طرح مذکورہ قول باری گویا یوں ہے : ہم نے اس کے ولی کو قصاص کا حق دیا ہے۔ آیت کے جس معنی پر سب کا اتفاق ہوجائے وہ آیت کی مراد قرار پاتا ہے۔ اس طرح گویا قصاص کی بات آیت میں منصوص ہوگئی ۔ سلطان کا لفظ اگرچہ مجمل ہے لیکن سب کے اتفاق کی بناء پر اس کی مراد کا مفہوم معلوم ہوگیا : قول باری : ومن قتل مظلوما ایک عموم ہے اور آیت کے ظاہر اور اس کے لفظ کے مقتضا کے مطابق اس عموم کا اعتبار درست ہے۔ زیر بحث آیت کی نظیر یہ آیت بھی ہے : وکتبنا فیھا ان النفس بالنفس ( اور ہم نے تورات میں فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان ہے) اس میں اللہ سبحانہ نے یہ بنا ۔ یا کہ مذکورہ حکم بنی اسرائیل پر فرض کردیا گیا تھا اور یہ حکم تمام مقتولین کے سلسلے میں قصاص کے ایجاب کا عموم ہے۔ امام ابویوسف نے اس آیت سے غلام کو قصاص میں آزاد کو قتل کردینے کے مسئلہ میں استدلال کیا ہے۔ امام ابویوسف نے اس آیت سے غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کردینے کے مسئلہ میں استدلال کیا ہے۔ امام ابو یوسف کا مسلک یہ ہے کہ ہم سے پہلے انبیا کی شریعت ہم پر بھی لازم ہے جب تک حضور ﷺ کی زبانی اس کے نسخ کا ثبوت نہ ہوجائے اور ہمیں قرآن و سنت کے اندر کہیں بھی مذکورہ حکم کا نسخ نہیں ملتا۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ حکم ہم پر بھی اسی شکل میں لازم ہے جو اس کے ظاہر لفظ کا مقتضا ہے۔ اس کی ایک اور نظریہ آیت ہے : فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم ( جو شخص تمہارے ساتھ زیادتی کرے تم بھی اس کے ساتھ اسی طرح زیادتی کرو) اس لیے کہ جو شخص قتل کردیا جائے گا، قاتل کو یہ فعل اس کے ولی کے ساتھ زیادتی شمار ہوگا۔ یہ چیز تمام مقتولین کے سلسلے میں عام ہے۔ اسی طرح قول باری : وان عاقبتم فعاقبو بمثل ما عوقبتم بہ ( اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اتنا ہی دکھ پہنچائو جتنا کہ انہوں نے تمہیں پہنچایا ہے) کا عموم آزاد ، غلام ، مذکر، مونث ، مسلمان اور ذمی سب کے سلسلے میں قصاص کے وجوب کا مقتضی ہے۔ غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کرنا ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص کے مسئلے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کا قول ہے کہ صرف جان کے سلسلے میں آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص ہے، غلام کے قصاص میں آزاد کو اور آزاد کے قصاص میں غلام کو قتل کردیا جائے گا۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ آزادوں اور غلاموں کے درمیان ان تمام زخموں کے اندر بھی قصاص واجب ہے جن کا قصاص ممکن ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت بیان کی ہے کہ کسی زخم کے اندر آزاد اور غلام کے درمیان کوئی قصاص نہیں ہے۔ نیز آزاد کے قصاص میں غلام کو قتل کردیا جائے گا لیکن غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر غلام قتل کا مجرم ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا، لیکن غلام کے لیے آزاد سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ غلام کسی آزاد کو قتل کر دے تو اس صورت میں مقتول کے ولی کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے بدلے میں قاتل غلام کی ذات پر قبضہ کرلے۔ اس صورت میں وہ غلام اس کا ہوجائے گا۔ اگر غلام کسی آزاد کے خلاف قتل سے کم تر درجے کا بزم کرے۔ یعنی اسے زخمی کردے تو مجروح اگر چاہے اس سے قصاص لے سکتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جان کے سلسلے میں جس پر قصاص جاری ہوگا زخموں کے سلسلے میں بھی اس پر قصاص جاری ہوگا، نیز غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی جان لینے سے کم ترجرم کے اندر غلام کے لیے آزاد سے قصاص لیا جائے گا، جان کے سلسلے میں آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص کے وجوب پر زیر بحث آیت کی دلالت کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں حکم کو مقتولین تک محدود رکھا گیا ہے اور اس میں جان لینے سے کم تر جرم، یعنی زخموں کا ذکر نہیں ہے۔ مقتولین ، نیز سزا اور اعتداء کے بیان کے سلسلے میں ہم نے قرآن کی آیتوں کے عموم کا تمام تر جو ذکر کیا ہے وہ غلام کے قصاص میں آزاد کو قتل کردینے کا مقتضی ہے۔ نیز جب سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ آزاد کے قصاص میں غلام کو قتل کردیا جائے گا۔ تو اس سے ضروری ہوگیا کہ غلام کے قصاص میں آزاد کو بھی قتل کردیا جائے، کیونکہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ زیر بحث آیت میں غلام بھی مراد ہے۔ آیت کے مقتضیٰ نے مقتول اور قاتل غلام کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس لیے آیت سب کے لیے عام ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : ولاکھ فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب ( عقل و خرد رکھنے والو، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے) یہاں اللہ سبحانہ ، نے یہ بتایا ہے کہ اس نے قصاص اس لیے واجب کردیا کہ اس میں ہمارے لیے زندگی ہے۔ یہ خطاب آزاد اور غلام سب کو شامل ہے، کیونکہ عقل و خرد کے مالک ہونے کی صفت سب کو شامل ہے اور جب یہ علت سب کے اندر موجود ہوتی ہے تو پھر آیت کے حکم کو ان میں سے بعض تک محدود رکھنا اور بعض کو اس سے خارج کردینا جائز نہیں ہے۔ سنت کی جہت سے اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ یہ ارشاد غلاموں اور آزادوں سب کے لیے عام ہے، اس لیے دلالت کے بغیر اس میں سے کسی کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام اگر قاتل ہو تو وہ مذکورہ حدیث کے مطابق سلوک کا حق دار ہوگا۔ یہی بات اس صورت میں بھی ہونی چاہیے۔ جب غلام مقتول ہو کیونکہ حدیث میں غلام کے قاتل یا مقتول ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے سیاق و حدیث میں فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری پوری کرنے کے سلسلے میں ان کا ادنیٰ شخص بھی کوشش کرے گا۔ یہ ادنی ٰ شخص غلام ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اول خطاب میں آپ ﷺ نے غلام کا ارادہ نہیں فرمایا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معترض کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر غلام قاتل ہو تو وہ مراد ہوگا اور حضور ﷺ کے ارشاد کا دوسرا حصہ جس کا ذکر معترض نے کیا ہے کقاتل ہونے کی صورت میں غلام کے مراد ہونے سے مانع نہیں بنا تو پھر مقتول ہونے کی صورت میں غلام کے مراد ہونے سے بھی مانع نہیں بن سکتا۔ علاوہ ازیں حضور ﷺ کے مذکورہ ارشاد میں غیر غلام سے غلام کی تخصیص نہیں ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ :” گنتی کے اعتبار سے مسلمانوں کا ادنیٰ شخص ، یعنی ان میں سے ایک شخص۔ اس لیے اول خطاب کے حکم کو آزاد تک محدود رکھنے اور غلام کو اس میں شامل نہ کرنے کے ایجاب کے ساتھ خطاب کے زیر بحث حصے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اگر حضور ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ : مسلمانوں کا غلام بھی ان کی ذمہ داری پوری کرنے میں کوشش کرے گا۔ پھر بھی آپ ﷺ کا یہ ارشاد آزاد کے خون کے ساتھ غلام کیخون کی یکسانیت کا موجب نہ بنتا ، کیونکہ یہ ایک اور حکم ہے جس کا حضور ﷺ نے نئے سرے سے ذکر کیا۔ اور اس کے ساتھ غلام کو اس لیے مخصوص کردیا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری نبھاہنے کے سلسلے میں غیر غلام بھی بطریق اولیٰ کوشش کرے گا۔ اور جب اس حکم میں غلام کی تخصیص اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اس حکم کے ساتھ غلام ہی مخصوص ہے اور اس میں غیر غلام شامل ہے، تو پھر قصاص کے حکم کی تخصیص کے لیے اس کا موجب نہ ہونا بطریق اولیٰ ہوگا۔ اگر یہاں کہا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد : مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ خون میں باہم مماثلت کا مقتضی ہے، جبکہ غلام آزاد کی مثل نہیں ہوتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے خون کے اندر غلام کو آزاد کی مثل قرار دیا ہے کیونکہ آپ نے ان کی مماثلت کے حکم کو الام کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ اس لیے جو شخص یہ کہے گا کہ غلام آزاد کا مکافی اور مماثل نہیں ہے وہ کسی دلالت کے بغیر آپ ﷺ کے حکم سے بغاوت کرنے والا شمار ہوگا۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی ہم سے عبدالباقی بن القانع نے روایت کی ہے۔ ان سے معاذ بن المتنیٰ نے، ان سے محمد بن کیثر نے ، ان سے سفیان نے اعمش سے، انہوں نے عبداللہ بن مرہ سے، اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جو مسلمان اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس کا خون تین میں سے کسی ایک صورت کے سوا حلال نہیں ہوگا۔ ایک تو یہ کہ وہ تارک اسلام ہوکر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہوجائے، دوم یہ کہ وہ شادی شدہ زانی ہو اور سوم یہ کہ جان کے بدلے جان کا معاملہ ہو۔ اس ارشاد میں آپ ﷺ نے آزاد اور غلام کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اور جان کے بدلے جان کا قصاص واجب کردیا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد اس حکم سے مطابقت رکھتا ہے جسے اللہ سبحانہ نے بنی اسرائیل پر اس کی فرضیت کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث دو باتوں پر مشتمل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جبو بات بنی اسرائیل پر فرض کردی گئی تھی اس کا حکم ہم پر بھی باقی ہے اور دوسری بات یہ کہ ایجاب قصاص کے سلسلے یہ حدیث مکتفی بالذات ہے اور جانوں کے لیے عام ہے۔ اس پر سنت کی جہت ہے وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے۔ ان سے موسیٰ بن زکریا التستری نے ان سے سہل بن عثمان العسکری ابو معاویہ نے اسماعیل بن مسلم سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : قتل عمد میں قصاص ہے، الا یہ کہ اس کا ولی معاف کر دے۔ یہ ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اول یہ کہ ہر قتل عمد میں قصاص کا ایجاب ہے اور غلام کے قاتل پر بھی اس کا ایجاب ہے۔ دوم یہ کہ اس ارشاد کے ذریعے آپ ﷺ نے مال کے وجوب کی نفی کردی۔ اس لیے کہ اگر قصاص کے ساتھ تخییر کے طور پر مال بھی واجب ہوتا تو آپ ﷺ صرف قصاص کے ذکر پر اقتصار نہ کرتے، بلکہ مال کا بھی ذکر کردیتے۔ اس پر نظر اور عقلی استدلال کی جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ وہ یوں کہ غلام کا خون بھی محفوظ ہوتا ہے اور اسے وقت کا گزر جانا رفع نہیں کرتا جبکہ مقتول غلام قاتل کا بیٹا نہ ہو اور نہ ہی اس کی ملکیت ہو۔ اس بنا پر غلام اجنبی آزاد شخص کے مشابہ ہوگیا اور ان دونوں کے درمیان قصاص واجب ہوگیا جس طرح اسی علت کی بنا پر اس صورت میں غلام پر قصاص واجب ہوجاتا ہے جب وہ کسی آزاد کو قتل کر دے۔ اگر غلام کو کوئی شخص قتل کر دے تو مذکورہ علت کی بنا پر بھی قاتل پر قصاص واجب ہوجانا چاہیے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے جو حضرات غلام کے قصاص میں آزاد شخص کو قتل کردینے کی بات تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ وہ نقص اور کمی ہے جو غلامی کے سبب غلام کے اندر ہوتی ہے۔ حالانکہ جان کے اندر مساوات کا اعتبار نہیں ہوتا۔ مساوات کا اعتبار تو جان کے نقصان سے کم تر نقصانات کے اندر ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر دس آدمی مل کر ایک آدمی کو قتل کردیں تو اس کے قصاص میں ان سب کو قتل کردیا جائے گا اور مساوات کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک صحیح الاعضاء شخص ککسی مفلوج اور مریض شخص کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے میں قتل کردیا جائے گا۔ اسی طرح عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردیا جاتا ہے، حالانکہ عورت ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہے اور اس کی دیت مرد کی دیت سے کم ہوتی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قصاص کے ایجاب میں جان کے اندر مساوات کا اعتبار نہیں ہوتا۔ بلکہ ناقص کے قصاص میں کامل کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ حکم جان سے کم تر جرائم، یعنی زخموں کے اندر جاری نہیں ہوتا کیونکہ فقہا کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مفلوج ہاتھ کے قصاص میں تندرست ہاتھ قطع نہیں کیا جائے گا، البتہ بیمار جان کے قصاص میں تندرست جان لے لی جائے گی۔ لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی غلام کو عمداً قتل کرے گا تو قصاص لازم ہوجائے گا۔ آقا کا غلام کو قتل کردینا اگر آقا اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ان کی ایک مختصر تعداد نے کہا ہے کہ مقتول کے قصاص میں آقا کو قتل کردیا جائے گا، لیکن عامۃ الفقہاء کی رائے ہے کہ آقا کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ جو حضرت آقا کو قتل کردینے کے قائل ہیں انہوں نے اس سلسلے میں درج ذیل آیات سے اسی طریقے پر استدلال کیا ہے جس طریقے سے ہم نے آزاد کے بدلے آزاد کو قتل کردینے کے سلسلے میں کیا ہے۔ مثلاً یہ قول باری : کتب علیکم القصاصا فی القتلیٰ ، الحر ابحر تا آخری آیت۔ نیز : الفنس بالنفس۔ نیز فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ نیز حضور ﷺ کا ارشاد : مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ حضرت سمرہ ؓ بن جندب نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے غلام کو قتل کر دے گا ہم اسے قتل کردیں گے اور جو شخص اپنے غلام کی ناک کاٹ لے گا ہم اس کی ناک کاٹ دیں گے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ محولہ بالا آیات کے ظاہر میں ان حضرات کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اللہ سبحانہ نے تو ان آیات میں مولیٰ کو قصاص لینے کا حق اپنے اس ارشاد کی رُو سے دیا ہے : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا ( اور جو شخص مظلومانہ طریقے سے قتل کردیا جائے اس کے ولی کو ہم نے اس کے قصاص کے مطالبے کا حق دیا ہے) غلام کا ولی اس کا آقا ہوتا ہے، غلام کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی کیونکہ غلام کسی چیز کا مالک ہوتا اور چیز اس کی ملکیت میں آتی ہے تو وہ اسے آقا کی ہوجاتی ہے۔ میراث کی جہت سے نہیں بلکہ ملکیت کی جہت سے ، جب آقا ہی اس کا ولی ہوتا ہے تو پھر اس کے لیے اپنی ذات سے قصاص لینے کا ثبوت نہیں ہوسکتا۔ اس کی حیثیت اس شخص جیسی نہیں ہوتی جو اپنے مورت کو قتل کر دے۔ ایسی صورت میں قاتل پر قصاص واجب ہوجاتا ہے اور وہ مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وارث کو جو مال حاصل ہوتا ہے وہ تو مورث کی ملکیت سے اس کی طرف منتقل ہوتا ہے اور قاتل وارث نہیں ہوتا اس لیے اس پر قصاص کا وجوب اس کی اپنی ذات کے اعتبار سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کے غیر کے اعتبار سے ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا کہ وہ چیز اس کے آقا کی طرف میراث میں منتقل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر غلام کا بیٹا قتل کر دیاجائے تو اس کے قاتل پر غلام کے لیے قصاص کا حق ثابت نہیں ہوگا کیونکہ غلام کو کسی چیز کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح غلام کے غیر پر غلام کے لیے قصاص ثابت نہیں ہوگا اور جب غلام کے لیے اس کے بیٹے کا قصاص اس کے قاتل پر واجب ہوگا تو اس قصاص کا حق اس کے آقا کو حاصل ہوجائے گا۔ اسے حاصل نہیں ہوگا۔ اسی وجہ سے یہ بات جائز نہیں کہ اگر آقا اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کا قصاص اس کے آقا پر واجب کردیا جائے گا۔ قرآن مجید کی اس آیت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ غلام کے لیے درج بالا امر کا ثبوت نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے : ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی ( اللہ ایک مثال دیتا ہے ۔ ایک تو ہے غلام جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا) اس آیت کے ذریعے اللہ سبحانہ نے ہر چیز سے غلام کی ملکیت کی عمومی نفی کردی۔ اس لیے اب یہ بات جائز نہیں رہی کہ اس کا کسی پر کوئی حق ثابت ہوجائے اور جب یہ بات جائز نہیں رہی کہ غلام کے حق میں کوئی چیز ثابت ہوجائے اور عدم ثبوت کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود غیر کی ملکیت ہوتا ہے اور اس کے لیے جو چیز واجب ہوتی ہے اس کا حقدار بھی اس کا آقا ہوتا ہے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ آقا پر غلام کے لیے قصاص واجب نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں غلام آزاد کی طرح نہیں ہوسکتا کیونکہ آزاد کے حق میں کسی اور پر قصاص واجب ہوسکتا ہی اور پھر اس کی جہت سے قصاص لینے کا یہ حق اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اسی بنا پر اس کے ورثاء اپنے اپنے حصوں کی نسبت سے قصاص کے اس حق کے وارث قرار پاتے ہیں۔ جو وارث اپنے اس مورث کو قتل کرنے کی وجہ سے وراثت سے محروم رہتا ہے وہ اس قصاص کا بھی وارث نہیں ہوتا۔ قصاص لینے کا حق صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جو مقتول کے وارث قرار پاتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ اس جہت سے غلام کا خون اس کے مال کی طرح نہیں ہے، اس لیے کہ آقا اسے قتل کرنے کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے خلاف قتل کے اقرار کا مالک ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے آقا غلام کے خون کے سلسلے میں اجبی یعنی تیسرے آدمی کی طرح ہوگا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ آقا اس کے قتل کا مالک نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے خلاف قتل کے اقرار کا مالک ہوتا ہے تاہم وہ اس کا ولی ہوتا ہے اور اس کے قاتل سے قصاص لینے کا حق دار ہوتا ہے۔ بشرطیکہ قاتل کوئی تیسرا آدمی ہو۔ آقا کو مذکورہ حق اس بنا پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس کی گردن کا مالک ہوتا ہے۔ یہ حق اسے میراث کی جہت سے حاصل نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آقا ہی غلام کے قاتل سے قصاص لینے کا حق رکھتا ہے غلام کے رشتہ دار اس حق کے مالک نہیں ہوتے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ غلام کے قصاص کا اسی طرح مالک ہوتا ہیجس طرح وہ اس کی گردن کا مالک ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر آقا ہی اپنے غلام کا قاتل ہو تو آقا کے سوا کسی اور کو آقا سے اس کا قصاص لینا جائز نہیں ہوگا۔ قول باری : فمن اعتدی علیکم فاعتدو علیہ کے سلسلے میں یہ بات کہنا جائز نہیں ہے کہ آیت کے خطاب کا رخ اس صورت میں آقا کی طرف ہوگا جب وہ اپنے غلام کو قتل کردینے کی بنا پر معتدی، یعنی زیادتی کرنے والا ہو۔ اس لیے کہ اگرچہ آقا اپنے غلام کو قتل کر کے اور اپنا مال ضائع کرن کی بناء پر اپنی ذات کے ساتھ زیادتی کرنے والا ہوگا، تاہم یہ بات درست نہیں ہوگی کہ آیت میں اس سے یہ خطاب ہو کہ وہ اپنی ذات سے قصاص وصول کرلے اور نہ ہی یہ بات درست ہوگی کہ مذکورہ خطاب آقا کے سوا کسی اور کو ہو کہ وہ آقا سے اس کے غلام کے قتل کا قصاص لے لے، کیونکہ ایسی صورت میں آقا اس دوسرے شخص کے ساتھ زیادتی کرنے والا نہیں ہوگا، جبکہ اللہ سبحانہ نے اس شخص کے لیے حق واجب کیا ہے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو، کسی اور کے لیے یہ حق واجب نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قتل کی اس صورت میں امام المسلمین آقا سے قصاص لے گا، جس طرح و اس شخص سے قصاص لیتا ہے جس نے کسی لاوارث شخص کو قتل کردیا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام المسلمین تو صرف ایسا قصاص لے سکتا ہے جسے لینے کا حق تمام مسلمانوں کے لیے ثابت ہو، جب تمام مسلمان مقتول کی میراث کے مستحق قرر پائیں، جب کہ غلام کی کوئی میراث نہیں ہوتی کہ تمام مسلمانوں کے لیے اس کے قاتل سے قصاص لینے کا حق ثابت ہوجائے، چناچہ یہ بات جائز نہیں کہ مذکورہ حق امام المسلمین کے لیے ثابت ہوجائے۔ آپ نہیں یدکھتے کہ اگر غلام خطاً قتل ہوجائے تو اس صورت میں اس کا آقا ہی قاتل سے اس کی قیمت وصول کرنے کا مستحق ہوتا ہے۔ دیگر مسلمان یا امام السملمین اس کا مسحق نہیں ہوتا۔ نیز اگر لاوارث آزاد شخص خطاً قتل ہوجائے تو اس کی دیت بیت المال میں چلی جاتی ہے۔ یہی حکم قصاص کا بھی ہوگا کہ اگر قصاص آقا پر ثابت ہوجائے تو امام اس قصاص کا حقدار نہیں ہوگا بلکہ آقا ہی اس کا حقدار ہوگا اور چونکہ آقا کی ذات پر اس حق کا ثبوت محال ہوگا اس لیے یہ حق باطل ہوجائے گا۔ حضرت سمرہ ؓ بن جندب کی جس حدیث کا بحث کی ابتدا میں حوالہ دیا گیا ہے اس کی معارض حدیث بھی موجود ہے۔ اس کی روایت ابن قانع نے کی ہے، ان سے المقبری نے ، ان سے خالد بن یزید بن صفوان النوفلی نے، ان سے ضمرہ بن ربیعہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے ، نیز اوزاعی نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا، یعنی اپنے والد سے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو عمداً قتل کردیا۔ حضور ﷺ نے اسے کوڑے لگائے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا، نیز وظائف سے اس کا حصہ ساقط کردیا، لیکن اس سے غلام کے قتل کا قصاص نہیں لیا۔ اس روایت نے حضرت سمرہ ؓ بن جندب کی روایت کردہ حدیث کے ظاہر سے ثابت ہونے والے حکم کی نفی کردی ہے جس سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو غلام کے قصاص میں اس کے قاتل آقا کو قتل کردینے کے قائل ہیں۔ یہ روایت مذکورہ حکم کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ ان آیات کے ظاہر، نیز ان کے معانی کے ساتھ مطابقت بھی رکھتی ہے جن کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔ وہ معانی یہ ہیں کہ اللہ سبحانہ نے آقا کے لیے اپنے غلام کے قصاص کا ایجاب کردیا ہے نیز غلام کی ملکیت میں کسی چیز اور حق کے آنے کی نفی کردی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : ( اور خود کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا) اگر حضرت سمرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث تنہا ہوتی اور اس کی معارض وہ روایت نہ ہوتی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو بھی اس کی قطعیت کا جواز نہ ہوتا کیونکہ اس میں اس کے ظاہر کے سوا دوسرے معانی کا بھی احتمال ہے۔ وہ یہ کہ عین ممکن ہے مذکورہ آقا نے مقتول غلام کو پہلے آزاد کردیا ہو اور اس کے بعد اسے قتل کردیا ہو، یا اس کی ناک کان کاٹ لیے ہوں، یا یہ کہ اس نے عملی طور پر بہ قدم نہ اٹھایا ہو بس اسے اس کی دھمکی دی ہو اور یہ بات حضور ﷺ تک پہنچ گئی ہو اور آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ : جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کردیں گے یعنی اپنے آزاد کردہ غلام کو جو کبھی اس کا غلام تھا۔ لغت اور عرف میں اس قسم کا اطلاق عام ہے۔ ایک دفعہ حضرت بلال ؓ نے طلوع فجر سے پہلے ہی فجر کی اذان دے دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگو آگاہ رہو یہ عبد سو گیا تھا۔ حالانکہ حضرت بلال ؓ اس وقت عبد یعنی غلام نہیں تھے بلکہ آزاد تھے۔ ) اسی طرح حضرت علی ؓ کی خلافت کے زمانے میں ان کی مرر کردہ شریح نے وراثت کے ایک مسئلے میں غلط فیصلہ سنایا تھا : مسئلہ یہ تھا کہ ایک شخص وفات پا گیا تھا اور اس کے دو چچا زاد بھائی رہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک بھائی اس کا اخیافی بھی تھا یعنی دونوں کی ماں ایک تھی۔ شریح نے میراث اخیافی بھائی کو دے دی۔ اس پر حضرت علی ؓ نے فرمایا : اس پھولے ہونٹ والے غلام کو میرے پاس لائو حضرت علی ؓ نے ان کے بارے میں غلام کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ان پر غلامی کا دور گزرا تھا۔ قول باری ہے : واتو الیتا می اموالھم ( اور یتیموں کو ان کے اموال دے دو ) اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کبھی یتیم تھے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے : یتیم بچی سے اس کی ذات کے بارے میں رائے لی جائے گی۔ یعنی وہ بالغ لڑکی جو کبھی یتیم رہی تھی۔ یہاں اس امر میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد : جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کردیں گے۔ کا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اس میں وہ شخص مراد ہو جو پہلے غلام تھا اور بعد میں آزاد ہوگیا ہو۔ ہماری اس وضاحت سے اس شخص کے وہم کا بھی ازالہ ہوگیا جو یہ سوچتا ہے کہ آقائے نعمت ( آزاد کرنے والے آقا) سے اس کے مولائے اسفل ( آزاد کردہ غلام) کے قتل کا قصاص نہیں لیا جائے گا جس طرح بات سے اس کے بیٹے کے قتل کا قصاص نہیں لیا جاتا، جبکہ عین ممکن تھا کہ کسی کو اس بات کا گمان ہوجائے کہ قصاص نہ لینے کا حکم دے کر حضور ﷺ نے آقائے نعمت کا حق بات کے حق کی طرح قرار دیا ہے۔ اس کے خلاف دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے : کوئی ولد اپنے والد کے احسانات کا بدلہ چکا نہیں سکتا الا یہ کہ وہ اپنے والد کو کسی کا غلام پائے اور پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔ آپ ﷺ نے بیٹے کی طرف سے اپنے بات کو آزاد کردینے کے عمل کو باپ کا حق ادا کرنے نیز اس کے احسانات کا بدلہ چکا دینے کے مساوی قرار دیا۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان قصاص قول باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی نیز ومن قتل مطلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا۔ ان آیات کے ظواہر جس طرح جان کے سلسلے میں غلاموں اور آزادوں کے درمیان قصاص کے موجب ہیں اسی طرح جان کے سلسلے میں یہ مردوں اور عورتوں کے درمیان بھی قصاص کی موجب ہیں۔ اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد امام زفرادر قاضی ابن شبرمہ کا قول ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان صرف جان کا قصاص ہے۔ ابن شبرمہ سے ایک اور روایت کے مطابق ان کے درمیان جان سے کم تر جرم، یعنی زخموں کا بھی قصاص ہے۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک ، سفیان ثوری، لیث بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان جان اور جان لینے سے کم ترحرم، یعنی زخموں کا قصاص ہے۔ البتہ لیث کا قول ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے خلاف مذکورہ جرم کرے تو وہ اس کی دیت ادا کرے گا۔ اس سے بیوی کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کر دے تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کے مال سے نصف دیت وصول کرلی جائے گی۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کوئی عورت کسی مرد کو زخمی کر دے۔ اگر مرد کی عورت کو قتل یا زخمی کر دے، تو اس پر قصاص لازم ہوجائے گا اور اس پر کوئی چیز لوٹائی نہیں جائے گی۔ سلف سے بھی اس بارے میں اختلاف رائے منقول ہے۔ قتادہ نے سعید بن المسیب سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک عورت کے قتل پر اس کے قاتلین سے جن کا تعلق صنعا ( یمن) سے تھا قصاص لیا تھا۔ عطاء، شعبی اور محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردیا جائے گا۔ اس بارے میں حضرت علی ؓ سے مختلف روایتیں منقول ہیں ۔ لیث نے حکم سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو عمداً قتل کر دے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ عطاء ، شعبی اور حسن بصری سے مروی ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : مقتولہ کے ورثاء چاہیں تو قاتل مرد کو قتل کردیں اور مرد کی نصف دیت ادا کردیں اور اگر چاہیں تو مرد کی نصف دیت وصول کرلیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ سے مروی دونوں قول مرسل ہیں کیونکہ ان کے راویوں میں سے کسی نے بھی حضرت علی ؓ سے کسی چیز کا سماع نہیں کیا۔ اگر یہ دونوں روایتیں ثابت ہوجائیں تو باہم متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس سلسلے میں حضرت علی ؓ سے کوئی روایت موجود نہیں ہے، البتہ حکم کی روایت جس میں قصاص کے ایجاب کی بات کہی گئی ہے، مال کی بات نہیں کی گئی، اولیٰ ہے۔ اس لیے کہ ظاہر کتاب سے اس کی موافقت ہے، قول باری ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلی ، قصاص کی موجب تمام آیات میں دیت کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ بات تو جائزہی نہیں کہ نص پر اس جیسی نص کے بغیر اضافہ کردیا جائے کیونکہ نص پر اضافہ اس نص کے نسخ کا موجب ہوتا ہے۔ ابن قاتع نے روایت بیان کی، ان سے ابراہیم بن عبداللہ نے، ان سے محمد بن عبداللہ الانصاری نے، ان سے حمید نے انس بن مالک سے کہ الربیع بنت النضر نے ایک لونڈی کو طمانچہ مار کر اس کے سامنے کا دانت توڑ دیا۔ اس کے لواحقین کو جرمانہ کی ادائیگی کی پیشکش کی گئی۔ لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ آپ نے انہییں قصاص لینے کا حکم دیا۔ یہ سن کر الربیع کے بھائی حضرت انس ؓ بن النضر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ، کیا الربیع کا دانت توڑا جائے گا ؟ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ، اے انس، اللہ کی کتاب یعنی اس کا مقرر کردہ فرض قصاص ہے۔ پھر مذکورہ لونڈی کے لواحقین نے یہ معاملہ رفع دفع کر کے الربیع بنت النضر کو معاف کردیا۔ جب یہ خبر حضور ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو اگر اللہ کے نام قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر دے۔ اس روایت میں حضور ﷺ نے واضح کردیا کہ اللہ کی کتاب میں جو حکم ہے وہ قصاص کا حکم ہے مال کا حکم نہیں ہے، اس لیے قصاص کے ساتھ مال کا اثبات جائز نہیں ہوگا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ وہ یہ کہ اگر مقتولی کی جان کا قصاص واجب نہ ہو تو پھر مال دینے کے ساتھ اس کا ایجاب جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں مال جان کا بد ہوجائے گا اور یہ بات درست نہیں ہے کہ مال کے بدلے کسی کی جان لے لی جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص اس پر رضا مند ہوجائے کہ اسے قتل کردیا جائے اور اس کے بدلے اس کے وارث کو مال دے دیا تو ایسا کرنا درست نہیں ہوگا۔ وضاحت سے یہ بات باطل ہوگئی کہ قصاص مال دینے پر موقوف ہوجاتا ہے۔ حسن بصری اور عثمان النبی کا مسلک ہے کہ عورت اگر قتل کا ارتکاب کرے تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کے مال سے نصف دیت وصول کرلی جائے گی۔ اس قول کی تردید ان آیات کے ظواہر سے ہوتی ہے جو قصاص کو واجب کرتی ہیں اور اس سے ایک ایسے حکم کا اضافہ ہوجاتا ہے جس کا ذکر ان آیات میں نہیں ہے۔ قتادہ نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کو قتل کردیا جس نے پازیب پہن رکھی تھی۔ یہودی کو پکڑ کر حضور ﷺ کے پاس لایا گیا اور آپ ﷺ نے قصاص میں اسے قتل کرنے کا حکم دیا، زہری نے ابوبکر بن عمرو بن حزم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کردیا جائے گا۔ نیز حضرت عمر ؓ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک عورت کے قصاص میں قاتلین کو پوری جماعت کو قتل کر ا دیا تھا اور اس سلسلے میں آپ کے ہم مرتبہ صحابہ کرام میں سیے کسی کی طرف سے بھی اختلاف رائے کا اظہار نہیں ہوا تھا اس جیسی بات اجماع کی صورت ہوتی ہے۔ عورت کے قصاص میں مرد کو مال کے بدل کے بغیر قتل کردیا جائے گا۔ اس پر وہ باتیں دلالت کرتی ہیں جن کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں، یعنی تندرست اور مریض عورتوں کے درمیان مساوات کا اعتبار ساقط ہوتا ہے۔ عاقل کو دیوانے کے قصاص میں اور مرد کو بچے ک قصاص میں قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ بات جانوں کے اندر مساوات کے اعتبار کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک ان جرائم کا تعلق ہے جو جان لینے کے جرم سے کم تر ہوں، یعنی مختلف قسم کے زخم تو ان میں مساوات کا اعتبار واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ مفلوج ہاتھ کے قصاص میں تندرست ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اصحاب نے جان لینے سے کم تر جرائم کے اندر مردوں اور چعورتوں کے درمیان نیز آزادوں اور غلاموں کے درمیان قصاص کو واجب نہیں کیا، اس لیے کہ جان سے کم تر اشیاء یعنی انسانی اعضاء آپس میں غیر مساوی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے مرد کے ہاتھ کے بدلے غلام کا ہاتھ، نیز عورت کا ہاتھ کیوں نہیں قطع کیا جس طرح تندرست ہاتھ کے بدلے مفولج ہاتھ قطع کردیتے ہیں ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا مذکورہ موقع پر قصاص کا سقوط نقص کی جہت سے نہیں ہوا، بلکہ ان اعضاء کے احکام میں اختلاف کی بناپر ہوا ہے۔ اور یہ صورت اس جیسی بن گئی ہے کہ مثلاً دائیں ہاتھ کے قصاص میں بایاں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ہمارے اصحاب نے جان لینے سے کم تر جرم میں عورتوں کے درمیان قصاص کو واجب کردیا کیونکہ طرفین کے اعضاء یکساں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جان سے کم تر جرم میں غلاموں کے درمیان قصاص واجب نہیں کیا کیونکہ غلاموں میں طرفین ( مجرم اور جرم کی زد میں آنے والے) کے درمیان مساوات کا علم صرف قیمتیں لگا کر نیز ظن غالب سے کام لے کر ہی ہوسکتا ہے اس لیے قصاص واجب نہیں ہوا جس طرح کسی کا نصف بازو کاٹ ڈالنے والے مجرم کا ہاتھ نصف بازو سے نہیں کاٹا جاسکتا کیونکہ اس بارے میں علم تک رسائی کا ذریعہ اجتہاد ہے اس لیے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک غلام کے اعضاء کا حکم ہر اعتبار سے اموال کے حکم میں ہوتا ہے اس لیے مجرم کے عاقلہ پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی، بلکہ مجرم کے مال میں جرمانہ کالزوم ہوگا لیکن جان کے اندر یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ قتل خطا میں دیت کالزوم عاقلہ پر ہوتا ہے اور اس میں کفارہ واجب ہوتا ہے اس طرح یہ صورت اموال کے خلاف کئے جانے والے جرائم سے مختلف ہوگئی۔ کافر کے بدلے میں مومن کا قتل امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد، امام زفر، ابن ابی لیلیٰ اور عثمان البتی کا قول ہے ۔ کہ ذمی کے قصاص میں مسلمان کا قتل کردیا جائے گا ۔ قاضی ابن مشبرمہ ، سفیان ثوری، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مسلمان نے ذمی کو دھوکے سے مار ڈالا ہو تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا ورنہ نہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم گزشتہ صفحات میں جن آیات کا ذکر کرتے آئے ہیں ان سب کا ظاہر ذمی کے قصاص میں مسلمان کے قتل کو واجب کرتا ہے کیونکہ کسی بھی آیت میں مسلمان اور ذمی کے درمیان اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ قول باری : کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ سب کے لیے عام ہے ۔ اسی طرح قول باری : الحر بالحر و العبد یا لعبد ولانثی بھی سب کے لیے عام ہے۔ آیت کے سیاق و ارشاد باری : فمن عفی الہ من اخیہ شی میں کوئی دلالت نہیں ہے جسے سے پتہ چلتا ہو کس آیت کا اول حصہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے اور اس میں کفار داخل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں نسب کی جہت سے اخوت کا احتمال بھی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جن امور پر عموم کا لفظ مشتمل ہو ان میں سے بعض کا ایک مخصوص حکم کے ساتھ عطف جملے کے حکم کی تخصیص پر دلالت نہیں کرتا۔ جیسا کہ ہم آیت کے حکم پر بحث کی دوران ذکر کر آئے ہیں۔ اسی طرح قول باری : وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس تا آخر آیت ، کا عموم کافر کے قصاص میں مومت کو قتل کردینے کا مقتضی ہے۔ اس لیے کہ ہم سے پہلے انبیاء کی شریعت ہمارے حق میں ثابت ہوتی ہے جب تک اللہ سبحان، اس شریعت کو اپنے نبی ﷺ کی زبانی منسوخ نہ کر دے اگر مذکورہ شریعت منسوخ نہ ہو تو یہ ہمارے نبی ﷺ کی شریعت ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری ہے : اولئک الذین ھدی اللہ فبھدا ھم اقتدہ ( یہ وہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی تم بھی ان کی ہدایت کی پیروی کرو) مذکورہ آیت یعنی : النفس بالنفس تا آخر آیت میں جو حکم مذکور ہے وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی شریعت ہے، اس پر حضور ﷺ کا وہ حکم دلالت کرتا ہی جو آپ نے دانت کے قصاص کے سلسلے میں دیا تھا اور جس کا ذاکر حضرت انس ؓ کی روایت کردہ حدیث میں موجود ہے۔ یہ حدیث ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ جب حضرت انس بن النضر ؓ کی بہن الربیع نے ایک لونڈی کو طمانچہ مار کر اس کے سامنے کا دانت توڑ دیا اور بھائی نے کہا کہ میری بہن کا دانت نہ توڑا جائے گا۔ تو آپ نے ان سے فرمایا : ” اللہ کی کتاب یعنی اس کا مقرر کردہ فرض قصاص ہے۔ “ حالانکہ قرآن مجید میں ” دانت کا بدلہ دانت “ کا حکم مذکورہ آیت کے سوا کہیں اور نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے ہم پر مذکورہ آیت کے موجب ( حرف جیم کے زبر کے ساتھ ) کی وضاحت فرما دی۔ اگر ہم سے پہلے انبیاء کی شریعت اپنے نفس ورود کے ساتھ ہم پر لازم نہ ہوتی تو بھی حضور ﷺ کی طرف سے مذکورہ آیت کے حکم کے موجب کا بیان ہی کافی ہوتا۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد دو باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مذکورہ آیت کا حکم ہم پر لازم ہے اور دوسری بات یہ کہ حضور ﷺ نے ہمیں بتادیا کہ آپ کی طرف سے اس بارے میں خبر دینے سے پہلے ہی ظاہر کتاب نے ہم پر یہ حکم لازم کردیا تھا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی کتاب میں دوسرے انبیاء کی شریعت کے جو احکام بیان فرمائے ہیں وہ ہم پر بھی ثابت ہیں، بشرطیکہ انہیں منسوخ نہ کردیا گیا ہو، اور جب ہماری مذکورہ بالا بات ثابت ہوگئی اور دوسری طرف آیت میں مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا، تو اب مسلمان اور کافر دونوں پر آیت کے حکم کا اجرا واجب ہوگیا۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : ومن قتل مظلوما فقد جعلنا ولیہ سلطا نارا ( اور جو شخص مظلومانہ طریقے سے قتل ہوجائے ہم نے اس کے ولی کو قصاص کے مطالبے کا حق دے دیا) اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت میں مذکورہ لفظ سلطان سے مراد قصاص ہے اور چونکہ اس میں مسلمان کی کافر سے تخصیص نہیں ہے اس لیے اس کا اطلاق دونوں پر ہوگا۔ سنت کی جہت سے اس پر اس حدیث سے دلالت ہوتی ہے جسے اوزاعی نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ،: لوگو، آگاہ رہو، جو شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کا ولی دو باتوں میں سے ایک اختیار کرلے گا۔ یا تو وہ قصاص لے گا یا دیت وصول کرے گا۔ ابوسعید المقبری نے ابو شیح الکعبی سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت عثمان ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تین میں سے کسی ایک صورت کے سوا کسی اور صورت میں ایک مسلمان کا خون حلال نہیں ہوگا۔ پہلی صورت یہ ہے کہ احصان کے بعد زنا ہو، دوسری یہ کہ ایمان کے بعد کفر ہو اور تیسری یہ کہ کسی کا ناحق قتل ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : قتل عمد قصاص ہے۔ مذکورہ بالا روایتوں کا عموم ذمی کے قصاص میں مسلمانوں کو قتل کردینے کا مقتضی ہے۔ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے عبدالرحمن بن السلمانی نے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے ذمی کا قصاص مسلمان سے لیا تھا اور فرمایا تھا کہ : اپنی ذمہ داری پوری کرنے والوں میں اس کام کا مجھے سب سے زیادہ حق پہنچتا ہے۔ الطحاوی نے سلمان بن شعیب سے روایت بیان کی ہے۔ ان سے یحییٰ بن سلام نے محمد بن ابی حمید المدنی سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ سے ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردینے کی روایت منقول ہے۔ اسی طرح ابن قاتع نے روایت بیان کی، ان سے علی بن الہیثم نے عثمان الفرازی سے، ان سے مسعود بن جویریہ نے ، ان سے عبداللہ بن خراش نے واسط سے، انہوں نے الحسن بن میومن سے، انہوں نے ابوالجنوب الاسدی سے کہ حیرہ کا ایک شخص حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا : امیر المومنین، ایک مسلمان نے میرے بیٹے کو قتل کردیا۔ میری چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں پھر گواہ پیش ہوئے۔ حضرت علی ؓ نے گواہوں کی چھان بین کر کے تسلی کرلی۔ پھر آپ نے قاتل مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اسے بٹھایا گیا اور مقتول کے باپ کو تلوار دی گئی۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ اسے جبانہ کے مقام پر لے جائو اور وہاں مقتول کا باپ اسے قتل کر دے۔ لیکن اس نے تلوار کی ضرب لگانے میں کچھ تاخیر کی۔ اس پر قاتل کے رشتہ داروں نے اس سے کہا کہ تم دیت قبول کرلو، اس طرح تمہاری زندگی آسان سے گزر جائے گی اور ہم پر تمہارا یہ احسان رہے گا، چناچہ وہ رضا مند ہوگیا اور تلوار نیام میں کرلی اور پھر حضرت علی ؓ کے پاس آیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان لوگوں نے تمہیں گالیاں دی ہوں اور دھمکیاں دے کر تمہیں ڈرایا ہو ؟ اس نے قسم کھا کر اس کا جواب نفی میں دیا اور کہا کہ : میں نے خود ہی دیت قبول کی ہے ۔ یہ سب کر حضرت علی ؓ نے فرمایا : تم ہی اس بارے میں بہتر جانتے ہو۔ پھر آپ نے لوگوں سے متوجہ ہو کر فرمایا : ہم نے انہیں جو دیا وہ اس لیے دیا تا کہ ہمارے خون ان کے خون کی طرح اور ہماری دیتیں ان کی دیتوں کی طرح ہوجائیں۔ ابن قانع نے روایت بیان کی ہے، ان سے معاذ بن المثنیٰ نے، ان سے عمرو بن مرزوق نے، ان سے شعبہ نے عبدالملک بن میسرہ سے، انہوں نے النزال بن سیرہ سے کہ ایک مسلمان نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا۔ اس کا بھائی حضرت عمر ؓ کے پاس آیا۔ حضرت عمر ؓ نے واقعات سن کر قاتل کو قتل کردینے کا مراسلہ جاری کردیا۔ مقتول کا بھائی قاتل کو قتل کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرنے لگا تو لوگوں نے اس سے کہا : جبیر، اپنے بھائی کے قاتل کو قتل کردو۔ اس کے جواب میں اس نے کہا : جب تک مجھے غصہ نہیں آئے گا اس وقت تک میں اس پر تلوار نہیں اٹھائوں گا۔ اس دوران میں حضرت عمر ؓ نے لکھ بھیجا کہ قاتل کو قتل نہ کیا جائے۔ بلکہ دیت وصول کرلی جائے۔ یہی روایت ایک اور سند سے بھی مروی ہے۔ جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت عمر ؓ کا مراسلہ پہنچنے سے پہلے ہی قاتل قتل ہوچکا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے دیت کی بات یہ سن کر کہی تھی کہ قتال ایک اچھا شہسوار ہے ۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابن ادریس سے، انہوں نے لیث سے، انہوں نے المحکم سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور حضر عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ دونوں حضرات نے فرمایا اگر کوئی مسلمان کسی یہودی یا نصرانی کو قتل کر دے تو قصاص میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ حمید الطویل نے میمون سے اور انہوں نے مہران سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حکم جاری کیا کہ یہودی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردیا جائے۔ چناچہ مسلمان کو قتل کردیا گیا۔ مذکورہ بالا تینوں حضرت سربرآوردہ صحابہ کرام میں شمار ہوتے ہیں اور ان سے جو بات منقول ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ بن عبدالعزیز نے اپنے زمانہ خلافت میں اسی پر عمل کیا تھا اور ہمیں نہیں معلوم کہ مذکورہ بالا حضرات کے پائے کے کسی فرد کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی ہو۔ ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل نہ کرنے کے قائلیں نے حضور ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس مییں ارشاد ہے کہ کوئی مسلمان کسی کافر کے قصاص میں اور نہ کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل کیا جائے گا۔ یہ حدیث قیس بن عبادہ، حارثہ بن قدامہ اور ابو جحیفہ نے روایت کی ہے۔ حضرت علی ؓ سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس قرآن کے سوا حضور ﷺ کی طرف سے کوئی عہدنامہ موجود ہے ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا : میرے پاس اس خط کے سوا اور کوئی عہدنامہ نہیں ہے جو میری تلوار کی نیام میں رکھا ہوا ہے، اس میں تحریر ہے کہ تمام مسلمانوں کے خون باہم مساوی ہیں، تمام مسلمان اپنے غیروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں اور کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل نہ کیا جائے۔ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا، یعنی اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا : کوئی مومن کسی کافر کے بدلے میں اور نہ کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل کیا جائے۔ نیز عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، ان سے ادریس بن عبدالکریم الحدار نے، ان سے محمد بن الصباح نے، ان سے سلیمان بن الحکم نے، ان سے القاسم بن الولید نے سنان بن المحارث سے، انہوں نے طلحہ بن مطرف سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کوئی مومن کسی کافر کے بدلے میں اور نہ کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا احادیث کی کئی تو جیہات ہیں اور یہ تمام توجیہات ان آیات اور روایات کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ ایک توجیہ تو یہ ہے کہ حضور ﷺ نے مذکورہ بات فتح مکہ کے دن اپن خطبے میں فرمائی تھی۔ اس وقت ایک واقعہ پیش آیا تھا وہ یہ کہ بنو خزاعہ کے ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں دشمنی کی بنا پر بنو ہذیل کے ایک شخص کو قتل کردیا تھا۔ اس موقعے پر حضور ﷺ نے فرمایا : لوگو، آگاہ رہو، زمانہ جاہلیت کا ہر خون اب میرے ان دونوں قدموں تلے رکھ دیا گیا ہے، کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل کیا جائے۔ آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ اس کافرکیبدلے میں جسے مسلمان نے زمانہ جاہلیت میں قتل کردیا تھا مسلمان کو قتل نہ کیا جائے گا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد گویا آپ ﷺ کے قول : زمانہ جاہلیت کا ہر خون اب میرے ان دونوں قدموں تلے رکھ دیا گیا ہے، کی تفسیر تھا، کیونکہ ایک حدیث کے مطابق اس کا ذکر ایک ہی خطاب میں ہوا تھا۔ اہل مغازی نے بیان کیا ہے کہ عہد ذمہ، ذمیوں کے ساتھ عہد کا وقوع فتح مکہ کے بعد ہوا تھا اور اس سے پہلے حضور ﷺ اور مشرکین کے درمیان مختلف مدتوں والے کئی عہود وجود میں آ چکے تھے۔ یہ عہود اس مضمون کے نہیں تھے کہ مشرکین اسلام کی ذمہ داری اور اس کے حکم میں داخل ہیں، اس بنا پر فتح مکہ کے دن آپ ﷺ کے ارشاد : کوئی مومن کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ کا رُخ ان کافروں کی طرف تھا جن کے ساتھ معاہدے ہوئے تھے ، کیونکہ اس وقت وہاں کوئی ذمی نہیں تھا جس کی طرف اس ارشاد کا رخ قرار دیا جاسکے، اس پر آپ کا ارشاد : اور کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل نہ کیا جائے ، دلالت کرتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے : فاتموا الیھم عھدھ الی مدتھم ( ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو) نیز فرمایا : فسمیحوا فی الارض اربعۃ اشھر ( پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو) اس وقت مشرکین کی دو قسمیں تھیں۔ ایک قسم تو وہ تھی جو حضور ﷺ کے ساتھ برسرپیکار تھی نیز وہ لوگ جن کے ساتھ آپ کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کیساتھ مخصوص مدت کے لیے معاہدہ تھا۔ اہل ذمہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس لیے آپ کا درج بالا کلام ان دونوں قسموں کے مشرکین کے بارے میں تھا۔ اس کلام میں ایسے لوگ داخل نہیں تھے جن کا تعلق مذکورہ بالا دونوں قسموں میں سے کسی ایک کے ساتھ نہیں تھا۔ زیر بحث حدیث ک مضمون میں وہ بات موجود ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نفئی قصاص کے سلسلے میں مذکورہ حکم معاہد حربی تک محدود ہے اور اس میں ذمی شامل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ آپ ﷺ نے مذکورہ حکم پر اپنے قول : اور کوئی عہد والا اپنے عہد کے اندر قتل نہ کیا جائے، کو عطف کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ آپ ﷺ کا یہ قول اگر ما قبل سے علیحدہ کردیا جائے تو ایجاب فائدہ کے اندر وہ بنفسہ مستقل نہیں ہوگا۔ بلکہ اسے ایک مخدوف لفظ کی ضرورت ہوگی اور یہ مخدوف لفظ وہی ہے جس کا پہلے ذکر گزر چکا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جس کافر کے بدلے میں عہد والے مستامن کو قتل نہیں کیا جائے گا وہ حربی کافر ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ کی مراد حربی کافر ہے۔ یہاں آپ ﷺ کے ارشاد : ولا ذوعھد فی عھدہ ( ار نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر) میں دو وجوہ کی بنا پر ” یقتل “ کا لفظ مخدوف ماننا درست نہیں ہے، یعنی یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مذکورہ عبارت اس طرح ہے : ولا یقتل ذو عھد فی عھدہ ( اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل کیا جائے گا) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ خطاب کی ابتدا میں جس قتل کا ذکر ہوا ہے وہ قصاص کے تحت وقوع پذیر ہونے والا قتل ہے۔ دوسرے فقرے میں بھی بعینہ اسی قتل کو مخدوف ہونا چاہیے اس کے نتیجے میں ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم دوسرے فقرے میں مطلق قتل کو مخدوف مانیں کیونکہ خطاب میں کسی مطلق قتل کا پہلے ذکر نہیں ہوا بلکہ قصاص کے تحت وقوع پذیر ہونے والے قتل کا ذکر ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد کے دوسرے فقرے میں اسی قتل کی نفی تسلیم کی جائے۔ اس طرح آپ ﷺ کے ارشاد کے الفاظ کچھ اس طرح ہوں گے : ولا یقتل مومن بکافر ولا یقتل زو عھد فی عھد بالکافر المذکو ربدیا ( کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر مذکورہ کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے) اگر مطلق قتل کو مخدوف مان لیں تو ہم ایسے مخدوف کا اثبات کرنے والے قرار پائیں گے جس کا ذکر خطاب کے اندر نہیں ہے اور ایسی بات جائز نہیں ہوسکتی۔ جب ہماری مذکورہ بات ثابت ہوگئی اور دوسری جس کافر کے بدلے میں عہد والے کو قتل نہ کیا جائے وہ حربی کافر ہے تو پھر آپ ﷺ کا ارشاد : کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔ اس مفہوم کا حامل ہوگا کہ : کسی مومن کو کی حربی کا فر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔ اور اس کے نتجیے میں حضور ﷺ سے مومن کو ذمی کے بدلے میں قتل کرنے کی نفی ثابت نہیں ہوگی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عہد کا ذکر عہد والے کے قتل کی ممانعت کرتا ہے جس تک وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ اگر ہم آپ ﷺ کے ارشاد : ” اور نہ ہی کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر “ کو اس امر پر محمول کریں کہ :” کسی عہد والے کو اس کے عہد کے اندر قتل نہیں کیا جائے گا “۔ تو ہم آپ ﷺ کے اس ارشاد کو فائدے سے خالی قرار دیں گے، حالانکہ حضور ﷺ کے کلام کا حکم یہ ہے کہ اسے فائدے کے اعتبار سے اس کے مقتضا پر محمول کیا جائے۔ آپ ﷺ کے کلام کو نہ تو بےمفہوم قرار دینا جائز ہے اور نہ ہی اس کے حکم کا اسقاط جائز ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ابو حجیفہ نے حضرت علی ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے جس حدیث کی روایت کی ہے اس میں مذکور ہے، کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس میں عہد کا ذکر نہیں ہے۔ یہ ارشاد تمام کافروں کے بدلے میں مومن کو قتل کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واحد حدیث ہے جس کی نسبت او حجیفہ نے حضرت علی ؓ کے پاس موجو حجیفہ ، یعنی مکتوب کی طرف کی ہے۔ اسی طرح قیس بن عباد کی روایت ہے۔ دراصل بعض راویوں نے اس میں عہد کا ذکر حذف کردیا ہے۔ جہاں تک اصل حدیث کا تعلق ہے وہ ایک ہی ہے۔ اس کے باوجود اگر روایت کے اندر یہ دلیل نہ بھی ہوتی کہ یہ ایک حدیث ہے، تو بھی مذکورہ دونوں حدیثوں کو اس پر محمول کرنا واجب ہوتا کہ ان کا ورود ایک ساتھ ہوا ہے کیونکہ حضور ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بات دو وقتوں میں بیان کی ہے۔ یعنی ایک دفعہ مطلق صورت میں عہد والے کے ذکر کے بغیر اور دوسری دفعہ عہد والے کے ذکر کے ساتھ۔ امام شافعی نے اس امر میں موافقت کی ہے کہ اگر ایک ذمی دوسرے ذمی کو قتل کر دے اور پھر مسلمان ہوجائے تو اس سے قصاص ساقت نہیں ہوگا۔ اگر اسلام ابتداء میں قصاص سے مانع ہوتا تو وہ اس صورت میں بھی مانع ہوتا جب قصاص کے وجوب کے بعد اور قصاص لینے سے پہلے طاری ہوجاتا، یعنی قاتل مسلمان ہوجاتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو باپ پر اس کا قصاص واجب نہیں ہوتا ہے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب وہ غیر سے قصاص کا وارث ہوجائے، یعنی وہ اپے باپ کو قصاص میں قتل نہیں کرسکتا۔ اس بات نے قصاص لینے سے اسی طرح روک دیا جس طرح اس نے ابتدا میں قصاص کے وجوب کو روک دیا تھا۔ اسی طرح اگر وہ مرتد ہو کر قتل ہوجاتا تو بھی قصاص ساقط ہوجاتا۔ اس طرح قصاص کے سلسلے میں ابتدا اور بقا کا حکم یکساں ہوگیا۔ اگر ابتدا ہی میں قتل کا حکم واجب نہ ہوتا تو قتل کرنے کے بعد مسلمان ہوجانے پر بھی یہ حکم واجب نہ ہوتا۔ قصاص کے ایجاب میں انسانوں کی زندگی کی بقاء کا مفہوم مضمر ہے جس کا ارادہ اللہ سبحانہ نے اس قول سے کیا ہے : ولکم فی القصاص حیوۃ اور یہ بات ذمی کے اندر بھی موجود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عہد ذمہ کے ذریعے جب ذمی کا خون محفوظ کر کے اس کی بقا کا ارادہ کرلیا تو پھر ضروری ہوگیا کہ یہ بات اس کے اور مسلمان کے درمیان قصاص کی موجب بن جائے جس طرح یہی بات اس وقت قصاص کی موجب بن جاتی ہے جس ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر دے۔ اگر کوئی کہے کہ مذکورہ بالا دلیل سے لازم آتا ہے کہ ایک حربی امام طلب کر کے دارالاسلام میں آیا ہو اور اسے کوئی مسلمان قتل کر دے تو قاتل کو قصاص میں قتل کردیا جائے، کیونکہ مذکورہ مستامن حربی کا خون بھی محفوظ ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ بلکہ مذکور شخص کا خون مباح ہوتا ہے۔ البتہ یہ اباحت فوری نہیں ہوتی۔ بلکہ موجل ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے شخص کو ہم دارالاسلام میں رہنے نہیں دیتے ، بلکہ اسے اس کے ملک میں پہنچا دیتے ہیں۔ تاجیل اس کے خون کی اباحت کا حکم اس سے زائل نہیں کرتی جس طر ثمن مئوجل میں تاجیل اسے واجب ہونے سے نہیں نکالتی۔ جو لوگ ذمی کے قصاص میں مسلمان کے قتل کے قائل نہیں ہیں انہوں نے حضور ﷺ کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ : مسلمانوں کے خون باہم مساوی ہوتے ہیں ۔ یہ بات کافر کے خون کو مسلمان کے خون کے مساوی قرر دینے میں مانع ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ محولہ بالا حدیث میں مذکورہ حضرات کے دعوے پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد کہ : مسلمانوں کے خون باہم یکساں ہوتے ہیں۔ غیر مسلموں کے خون کے ساتھ یکسانیت کی نفی نہیں کرتا۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا فائدہ بالکل واضح ہے ، وہ یہ کہ آزاد او غلام، شریف اور کمینے، تندرست اور بیمار کے درمیان خون کے اعتبار سے مساوات اور یکسانیت کا ایجاب کردیا گیا ہے۔ مذکورہ صورتیں زیر بحث حدیث کے فوائد اور اس کے احکام ہیں۔ اس حدیث کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مرد اور عورت کے مابین قصاص کے ایجاب، نیز ان کے خون کی باہمی مساوات کا حکم بھی اس سے مستفاد ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث کے ذریعے عورت کے اولیاء سے کسی چیز کی وصولی کی نفی ہوتی ہے، جب یہ اولیاء مقتولہ کے قصاص میں قاتل کو قتل کردیں۔ اسی طرح جب عورت قاتلہ ہو تو قصاص میں اسے قتل کرنے کے ساتھ اس کے مال میں سے نصف دیت کی وصولی کی بھی اس حدیث سے نفی ہوتی ہے۔ اگر حضور ﷺ کا ارشاد : مسلمانوں کے خون باہم برابر ہیں۔ مذکورہ بالا معانی کا فائدہ دیتا ہے تو پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ اس میں مذکورہ حکم ان لوگوں تک محدود ہے جن کا ذکر اس ارشاد میں ہوا ہے اور یہ بات مسلمانوں اور غیر مسلموں، یعنی ذمیوں کے درمیان خون کی باہمی یکسانیت کی نفی نہیں کرے گی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث کافروں کے خون کی باہمی یکسانیت کی نفی نہیں کرے گی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ حدیث کافروں کے خون کی باہمی یکسانیت میں مانع نہیں ہوتی جب یہ کافر ہمارے ذمی ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کا کوئی آدمی اگر ان کے کسی آدمی کو قتل کر دے تو اس سے قصاص لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مذکورہ حدیث مسلمانوں اور اہل ذمہ کے خون کی باہمی یکسانیت میں مانع نہیں ہے۔ ذمی کے قصاص میں مسلمان کو قتل کردیا جائے گا، اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر مسلمان کسی ذمی کی چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ مسلمان سے اس کے خون کا قصاص بھی لیا جائے کیونکہ ذمی کے خون کی حرمت اس کے مال کی حرمت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر غلام اپنے آقا کا مال چرالے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا، لیکن اگر وہ اپنے آقا کو قتل کر دے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک اس پر سب کا اتفاق ہے کہ متامن حربی کے قتل کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ذمی کے قتل کے بدلے میں بھی اسے قتل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تحریم قتل کے حکم میں مستامن حربی اور ذمی دونوں یکساں ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے دونوں کے مابین فرق کے وجوہ گزشتہ سطور میں بیان کردی ہیں۔ نیز امام شافعی نے جس اجماع کا حوالہ دیا ہے وہ اس طرح نہیں ہے جس طرح انہوں نے سوچا ہے۔ بشر بن ولید نے امام ابو یوسف سے روایت بیان کی ہے کہ مستامن حربی کے قتل کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو دھو کے سے مار ڈالے تو قاتل کو قتل کردیا جائے گا۔ دراصل یہ دونوں حضرات اسے حد سمجھتے ہیں، قصاص نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جن آیات میں قتل کا ذکر ہوا ہے ان میں دھوکے سے قتل کی صورت اور دیگر صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وہ حدیثیں بھی ہیں جن کا حوالہ ہم نے گزشتہ اوراق میں دیا ہے۔ ان سب کا عموم قصاص کے تحت قتل کو واجب کرتا ہے، حد کے تحت یہ سزا واجب نہیں کرتا۔ اس بنا پر جو شخص مذکورہ بالا آیات و سنن کے دلائل کے دائرے سے کسی دلالت کے بغیر نکل جائے گا اس کا مسلک مرجوح ہوگا اور استدلال کے میدان میں اس کی بات مات کھاجائے گی۔ باپ کے ہاتھوں بیٹے کا قتل اس مسئلے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ عامۃ الفقہاء کا قول ہے کہ باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس پر دیت لازم ہوگی جس کی ادائیگی اس کے مال سے کی جائے گی ہمارے اصحاب، اوزاعی اور امام شافعی کا یہی قول ہے ۔ ان حضرات نے اس مسئلے میں باپ اور دادا کے درمیان یکسانیت رکھی ہے حسن بن صالح بن حی کا قول ہے کہ دادا کو اپنے پوتے کے قتل کے قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ وہ پوتے کے حق میں دادا کی گواہی کو جائز قرار دیتے تھے، لیکن بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی کو درست تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو عمداً قتل کر دے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو قتل کردیا جائے گا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر باپ اپن بیٹے کو ذبح کر ڈالے تو اسے قصاص میں قتل کردیا جائے گا اور اگر تلوار مار کر مار ڈالے تو قتل نہیں کیا جائے گا۔ جو حضرت اس مسئلے میں باپ کے قتل کی نفی کرتے ہیں ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی روایت عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے ، انہوں نے عمرو کے دادا سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کسی باپ کو اس کے بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ حدیث مشہور و مستفیض ہے۔ نیز حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں اس کے مطابق فیصلہ سنایا تھا اور کسی نے بھی آپ کے اس فیصلے سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ اس طرح یہ حدیث حضور ﷺ کے ارشاد : وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ کے ہم پلہ ہے۔ نیز حکم کے لزوم میں اسی جیسی دیگر حدیثوں کی طرح ہے۔ اس حدیث کا مقام مستفیض اور متواتر حدیث جیسا ہے۔ عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں ابراہیم بن ہاشم بن الحسین نے، انہیں عبداللہ بن ستان الزروری نے ، انہیں ابراہیم بن رستم نے حماد بن سلمہ سے ، انہوں نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کہ : میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ باپ سے اس کے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ عبدالباقی ہی نے روایت بیان کی اور سے بشر بن موسیٰ نے ، ان سے خلاد بن یحییٰ نے ، اس قیس نے اسماعیل بن مسلم سے، انہوں عمرو بن دینار سے ، انہوں ن طائوس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : تم اور تمہارا مال سب تمہارے باپ کا ہے۔ آپ ﷺ نے اس کی جان کی نسبت اس کے باپ کی طرف اسی طرح کردی جس طرح اس کے مال کی نسبت اس کی طرف کی تھی۔ اس نسبت کا علی الاطلاق ہونا قصاص کی نفی کرتا ہے ۔ جس طرح آقا سے غلام کے قصاص کی نفی اس بنا پر ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے علی الاطلاق غلام کی ذات کی نسبت آقا کی طرف ایسے الفاظ میں کی تھی جو ظاہراًٰ ملکیت کے علی الاطلاق ہونے کے ذریعے ہمارے استدلال کو ساقط نیہں کرتی۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ایک شخص کی پاکیزہ ترین خوراک اس کی اپنی کمائی ہے اور اس کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا : تمہاری اولاد تمہاری کمائی ہے اس لیے تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھائو۔ آپ ﷺ نے بیٹے کو باپ کی کمائی قرار دیا جس طرح اس کا غلام اس کی کمائی ہے۔ اس لیے قصاص کے سقوط کے سلسلے میں بیٹے اور غلام کے درمیان مشابہت پیدا ہوگئی۔ نیز اگر باپ اپنے بیٹے کے غلام کو قتل کردے تو اسے اس کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ حضور ﷺ نے اسے اس کی کمائی قرار دیا ہے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کوئی شخص خود اپنے بیٹے کو قتل کر دے۔ ارشاد باری ہے : ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن و فصالہ فی عا مین ان اشکرلی ولوالدیک، الی المصیر، وان جاھداک علی ان تشرک ( اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کردی۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوڑنا ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کیا کر، میری ہی طرف واپسی ہے۔ اور اگر دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے) تا آخر آیت۔ اللہ سبحانہ نے کافر والدین کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر کرنے اور ان کا شکر گزار بننے کا حکم دیا، چناچہ ارشاد ہے : ان اشکرلی ولوالدیک اور ان کی شکر گزاری کو اپنی شکر گزاری کے ساتھ مقرون کردیا۔ یہ بات اس صورت میں باپ کے قتل کی نفی کرتی ہے جب وہ اپنے بیٹے کے کسی ولی اور سرپرست کو قتل کر دے۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب وہ اپنے بیٹے کو قتل کر دے، اس لیے کہ جو شخص بیٹے کو قتل کی وج سے قصاص لینے کا حق دار ہوگا اس کے لیے یہ حق مقتول بیٹے کی جہت سے ثابت ہوگا، لیکن اگر مذکورہ مقتول اس حق کا حقدار نہیں ہوگا تو مذکورہ شخص بیٹے کی جہت سے اس قصاص کا حقدار نہیں ہوگا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : اما یبلغن عندک الکبر احدھما او کلاھما فلا تقل لھما ان ولا تنھرھما وقل تھما قولا کریما۔ واخفض لھما جناح الدل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا ( اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کرو کہ پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں ن رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا) اس آیت میں اللہ سبحانہ ، نے کسی ایک حالت کی تخصیص نہیں کی، بلکہ انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا ایک مطلق اور عام حکم دیا۔ اس لیے باپ پر بیٹے کے قصاص کا حق ثابت کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو قتل کردینے کا عمل ان تمام امور کی ضد ثابت ہوگا جن اللہ سبحانہ، نے باپ کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں دیا ہے۔ حضور ﷺ نے حنظلہ بن ابی عامر راہب کو اپنے باپ کے قتل سے روک دیا تھا، حالانکہ وہ مشرک تھا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ برسرپیکار تھا اور جنگ احد میں مشرکین قریش کے ساتھ مل کر آپ ﷺ کے خلاف صف آرا ہوا تھا۔ اگر بیٹے کے لیے اپنے باپ کو کسی حالت میں قتل کردینا جائز ہوتا تو پھر اس کام کے لیے وہ حالت اولیٰ ہوتی جس میں ایک باپ حضور ﷺ کے خلاف صف آرا تھا : نیز وہ مشرک بھی تھا۔ حضور ﷺ کے خلاف قتال کرنے کی حالت سے بڑھ کر قابل مذمت، سزا اور قتل کی مستحق کسی اور شخص کی حالت نہیں ہوسکتی۔ جب حضور ﷺ نے اس حالت میں بھی بیٹے کو باپ کے قتل سے روک دیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ بیٹے کو کسی بھی حالت میں اپنے باپ کو قتل کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو قذف کرے، یعنی اس پر زنا کی تہمت لگائے تو اسے حد قذف نہیں لگائی جائے گی اور اگر باپ اپنے بیٹے کا ہاتھ کاٹ ڈالے تو قصاص میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح اگر بیٹے کا باپ پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی کی خاطر باپ کو قید میں نہیں ڈالا جائے گا۔ اس لیے کہ یہ تمام باتیں ان آیات کے مقتضا اور موجب کی ضد ہیں جن کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ بعض فقہا بیٹے کے مال کو حقیقت میں باپ کا مال قرار دیتے ہیں جس طرح غلام کا مال آقا کا مال ہوتا ہے اور اگر باپ اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لے لے تو اسے مذکورہ مال واپس کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ اگر باپ سے قصاص سے سقوط کے سلسلے میں کوئی اور دلیل نہ ہو صرف فقہا کا وہ اختلاف ہوتا جو بیٹے کے مال کے سلسلے میں ہے جس کا ذکرہم نے اوپر کیا ہے تو یہی بات باپ سے بیٹے کا قصاص لینے کے بارے میں شبہ پیدا کردینے کے لیے کافی ہوتی۔ ہم نے جن دلائل کا اوپر ذکر کیا ہے وہ قصاص کی آیات کی تخصیص کرتے ہیں اور اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ قصاص کی آیات میں باپ مراد نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ قتل میں دو آدمیوں کی شرکت ارشاد باری ہے : ومن یقتل مومنا متعمدا فجزائُہ جھنم خالدا فیھا ( اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے گا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا) نیز ارشاد ہے ومن قتل مومنا خطاتحریر رقبۃ مومنۃ ( اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کر دے) اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مذکورہ بالا وعید اس شخص کو بھی لاحق ہوگی جو قتل کے فعل میں دوسرے کے ساتھ شریک ہو، اگر دس افراد ایک شخص کو عمداً قتل کردیں تو ان میں سے ہر فرد اس وعید میں داخل ہوگا۔ اسی طرح اگر دس افراد ایک شخص کو غلطی سے قتل کردیں تو ان میں سے ہر فرد قتل کے حکم میں داخل ہوگا اور ہر ایک پر وہی کفارہ لازم ہوگا جو قتل کا ارتکاب کرنے والے تنہا فرد پر لازم ہوتا ہے، نیز اس امر میں بھی کوی اختلاف نہیں ہے کہ جان لینے سے کم تر جرم میں کفارہ لازم نہیں ہوتا۔ قول باری ہے : من اجل ذلک لتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔ ( اسی وج سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا) اس لیے اگر ایک گروہ مل کر کسی شخص کو قتل کر دے تو ان میں سے ہر ایک شخص قاتل کے حکم میں ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس ایک مقتول کے قصاص میں گروہ کے تمام افراد کو قتل کردیا جائے گا۔ جب بات اس طرح ہے کہ اگر دوافراد مل کر ایک شخص کو قتل کردیں اور ان میں سے ایک فرد اسے عمداً قتل کرے اور دوسرا غلطی سے یا ان میں سے ایک دیوانہ ہو اور دوسرا عاقل ، تو اس صورت میں چونکہ یہ بات معلوم ہے کہ غلطی سے قتل کرنے والا بھی پوری جان لینے والے کے حکم میں ہوگا، اس یے سب کے حق میں خطا کا حکم ثابت ہوجائے گا اور عمد کا حکم منتفی ہوجائے گا کیونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ دونوں کے لیے عمد کا حکم ثابت کردیا جائے یا دونوں کے لیے خطا کے حکم کا ثبوت ہوجائے۔ یہی صورت حال دیوانے اور عاقل نیز بچے اور بالغ کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر سب کے لیے قتل خطا کا حکم ثابت ہوجائے تو پوری دیت واجب ہوگی اور اگر سب کے لیے قتل عمد کا حکم ثابت ہوجائے تو قصاص واجب ہوجائے گا۔ فقہا کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جان کے سلسلے میں پوری دیت کے وجوب اور اس کے ساتھ قصاص کے وجوب میں دونوں کی وصولی کے اعتبار سے امتناع ہے۔ اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ جب ایک سے زائد افراد کی شراکت کے ساتھ لی جانے والی جان کے بدلے میں دیت کا وجوب ہوجائے، تو اس کے ساتھ ان میں سے کسی پر قصاص کا ثبوت نہ ہو۔ اس لیے کہ قصاص کا وجوب تمام قاتلین پر قتل عمد کے حکم کے ثبوت کا موجب ہوگا اور سب پر قتل عمد کے حکم کا ثبوت مذکورہ جان کے بدلے دیت کے وجوب کی نفی کر دے گا۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ کریں)
Top