Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 84
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ؕ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : ہر ایک يَّعْمَلُ : کام کرتا ہے پر عَلٰي : پر شَاكِلَتِهٖ : اپنا طریقہ فَرَبُّكُمْ : سو تمہارا پروردگار اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ هُوَ : کہ وہ کون اَهْدٰى : زیادہ صحیح سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دو کہ ہر شخص اپنے طریق کے مطابق عمل کرتا ہے۔ سو تمہارا پروردگار اس شخص سے خوب واقف ہے جو سب سے زیادہ سیدھے راستے پر ہے۔
ہر ایک کا طریق عمل اپنا ہے قول باری ہے (قل کل یعمل علی نشاکلتہ اے نبی ! ﷺ ان لوگوں سے کہہ دو کہ ” ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے “ ) مجاہد کا قہلے کہ ” اپنی طبیعت کے مطابق “ ایک قول ہے اپنی عادت پر جس سے وہ مانوس ہے۔ “ آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے جو فساد کے عادی ہوگئے ہوں اور انہیں اس میں سکون ملتا ہو نیز وہ اس پر برقرار رہنا چاہتے ہوں۔ ایک قول کے مطابق ” ہر شخص اپنے اخلاق و کردار کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ (شاکلتہ ) سے مراد وہ طریقہ ہے جو ایک شخص کے مناسب اور لائق ہوتا ہے اور اس سے اس کی مشابہت ہوتی ہے۔ خیر صلاح کی مناسبت و مشکلات بھلے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے اور شر و فساد کی مناسبت شریر لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (الخبیثت للخبیثین) یعنی خبیث باتیں خبیث لوگ کرتے ہیں اور صوالطیبت للطیبین) پاکیزہ باتیں پاکیزہ لوگ کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گزر لوگوں کے ایک گروہ کے پاس سے ہوا، انہوں نے آپ کو برے الفاظ سے خطاب کیا۔ آپ نے اچھے الفاظ میں اس کا جواب دیا، جب آپ سے اس پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے فرمایا :” ہر انسان ویہ کچھ خرچ کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔
Top