Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 30
وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا
وَقَالَ : اور کہے گا الرَّسُوْلُ : رسول يٰرَبِّ : اے میرے رب اِنَّ : بیشک قَوْمِي : میری قوم اتَّخَذُوْا : ٹھہرا لیا انہوں نے ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : اس قرآن کو مَهْجُوْرًا : متروک (چھوڑنے کے قابل)
اور اس دن رسول کہے گا اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو نظر انداز کر رکھا تھا1
36 رسول کی اپنے رب کے حضور شکایت کا ذکر وبیان : سو اس سے رسول کی اپنے رب کے حضور اپنی قوم کے بارے میں شکایت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی " قال " ماضی یہاں پر مضارع کے معنیٰ میں ہے۔ سو رسول کا یہ فرمانا اگرچہ قیامت کے روز ہوگا لیکن تحقق و قوع یعنی اس کے یقینی اور قطعی ہونے کے اعتبار سے یہ بات ایسی ہے کہ گویا یہ واقع ہوچکی ہے۔ اسلئے اس کو ماضی کے صیغے سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یعنی " قال " کے ساتھ۔ جبکہ دوسرا احتمال اس میں یہ ہے کہ پیغمبر کا یہ شکوہ اور فرمان و ارشاد آخرت میں نہیں بلکہ اسی دنیا میں ہوا ہے۔ اور یہیں پر آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنی قوم قریش کے اعراض اور ان کی بےرخی پر یہ شکوہ اپنے رب کے حضور کیا تھا۔ اور اپنے دکھ اور درد بھرے انداز میں اس طرح فرمایا تھا۔ حضرات اہل علم سے یہ دونوں قول مروی و منقول ہیں۔ کسی نے پہلے قول کو اختیار کیا اور اسی کو ترجیح دی اور کہا کہ چونکہ سیاق وسباق میں ذکر آخرت ہی کا ہو رہا ہے اس لئے یہی قول یہاں پر مناسب ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دوسرے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ دوسرا قول زیادہ مناسب ہے۔ کیونکہ لفظ ماضی کا تقاضا یہی ہے۔ (روح، ابن کثیر، محاسن التاویل خازن، مدارک، جلالین، فتح القدیر اور الفتوحات الالہیۃ وغیرہ) ۔ احتمال بہرکیف دونوں موجود ہیں۔ ہمارے نزدیک راحج ۔ قابل ترجیح۔ قول پہلا ہے کہ پیغمبر اپنے رب کے حضور آخرت ہی میں ایسا عرض کریں گے جو کہ ان کفار و منکرین کے تابوت میں آخری کیل کی طرح ہوگا۔ اور اس کے بعد یہ بدبخت ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ والعِلْمُ عِنْدَ اللّہِ سُبَحَانَہ وَتَعَالٰی وَہُوَ اعْلَمُ بِمُرَادِ کَلَامِہٖ جَلَّ وَ عَلَا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ 37 رسول کی طرف سے قرآن کو پس پشت ڈالنے کا شکوہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پیغمبر کہیں گے " اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا "۔ جس کے ساتھ آپ نے مجھے مبعوث فرمایا اور جس میں خود ان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے۔ سو لوگوں کا حال ہمیشہ یہی رہا کہ ان میں کے اکثر نہ اس کے سننے ماننے اور اس پر ایمان لانے کے روا دار ہیں اور نہ ہی یہ اس سے متعلق غور و فکر اور فہم و تدبر کی ضرورت سمجھتے ہیں اور نہ ہی یہ اس کی ہدایت و راہنمائی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور اس نور حق سے منہ موڑ کر اور پیٹھ پھیر کر یہ دوسری مختلف چیزوں اور لایعنی مشاغل میں مشغول و منہمک ہوتے ہیں۔ کہیں شعر و شاعری کا شغل ہے اور کہیں افسانوں اور ناولوں میں انہماک و اشتغال ہے اور کہیں گانے بجانے کا کاروبار اور کہیں تصویر کشی اور مجسمہ سازی جیسے لایعنی بلکہ گناہ کے کاموں کا وہ دور جن کو آرٹ اور فن کا نام دے کر اپنایا اور گلے لگایا جا رہا ہے۔ اور طرح طرح کے شرکیات کو فن پاروں کا نام دے کر اور ثقافت کا حصہ قرار دے کر گلے لگایا جا رہا ہے۔ اسی طرح طرح کی خرافات کے لئے طرح طرح کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔ ان سب لایعنی بلکہ ممنوع کاموں کے لئے ان کے پاس وقت بھی ہے اور محنت و روپیہ پیسہ بھی۔ اور اس کے لئے ذرائع و وسائل بھی بےدھڑک صرف کئے جاتے ہیں۔ لیکن قرآن حکیم کو سیکھنے پڑھنے اور اس میں غور و فکر سے کام لینے کے لئے نہ ان کے پاس وقت ہے نہ فرصت اور نہ ذرائع نہ وسائل ۔ الا ماشا اللہ ۔ سو لوگوں کا حال کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ۔ فَالِی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی ۔ سو آیت کریمہ کے الفاظ کا عموم ہجر اور ترک کی ان سب ہی صورتوں کو عام اور شامل ہے۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، معارف، مراغی وغیرہ) ۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ یہ لفظ یعنی " مہجور "، " ہجر " سے بھی ماخوذ ہوسکتا ہے جس کے معنی چھوڑنے اور ترک کرنے کے ہیں۔ اور اس صورت میں آیت کریمہ کا یہ مطلب ہوگا جو اوپر بیان ہوا۔ جبکہ اس میں دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ ہجر سے مشتق ہو جس کے معنیٰ یا وہ گوئی اور بکواس کے آتے ہیں۔ اس صورت میں اس لفظ کے دو معنیٰ و مطلب ہوں گے۔ ایک یہ کہ ان بدبختوں نے اس کلام حق و ہدایت کو بکواس اور یا وہ گوئی سمجھا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور دوسرا یہ کہ انہوں نے اس کتاب حکیم کے خلاف بکواس اور یا وہ گوئی سے کام لیا۔ اور اس طرح انہوں نے خود اپنی محرومی اور ہلاکت و تباہی کا سامان کیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف قرآن حکیم سے اعراض و لاپرواہی اور غفلت و روگردانی بڑے ہی سخت خسارے کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر گامزن رکھے ۔ آمین۔
Top