مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 3452
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأَسْرَى قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْمُكَ وَأَهْلُكَ اسْتَبْقِهِمْ وَاسْتَأْنِ بِهِمْ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ قَالَ وَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْرَجُوكَ وَكَذَّبُوكَ قَرِّبْهُمْ فَاضْرِبْ أَعْنَاقَهُمْ قَالَ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ انْظُرْ وَادِيًا كَثِيرَ الْحَطَبِ فَأَدْخِلْهُمْ فِيهِ ثُمَّ أَضْرِمْ عَلَيْهِمْ نَارًا قَالَ فَقَالَ الْعَبَّاسُ قَطَعْتَ رَحِمَكَ قَالَ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا قَالَ فَقَالَ نَاسٌ يَأْخُذُ بِقَوْلِ أَبِي بَكْرٍ وَقَالَ نَاسٌ يَأْخُذُ بِقَوْلِ عُمَرَ وَقَالَ نَاسٌ يَأْخُذُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ قَالَ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ لَيُلِينُ قُلُوبَ رِجَالٍ فِيهِ حَتَّى تَكُونَ أَلْيَنَ مِنْ اللَّبَنِ وَإِنَّ اللَّهَ لَيَشُدُّ قُلُوبَ رِجَالٍ فِيهِ حَتَّى تَكُونَ أَشَدَّ مِنْ الْحِجَارَةِ وَإِنَّ مَثَلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ كَمَثَلِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ مَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ وَمَثَلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ كَمَثَلِ عِيسَى قَالَ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَإِنَّ مَثَلَكَ يَا عُمَرُ كَمَثَلِ نُوحٍ قَالَ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنْ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا وَإِنَّ مِثْلَكَ يَا عُمَرُ كَمَثَلِ مُوسَى قَالَ رَبِّ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوْا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ أَنْتُمْ عَالَةٌ فَلَا يَنْفَلِتَنَّ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَاءٍ أَوْ ضَرْبَةِ عُنُقٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا سُهَيْلُ ابْنُ بَيْضَاءَ فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ الْإِسْلَامَ قَالَ فَسَكَتَ قَالَ فَمَا رَأَيْتُنِي فِي يَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ حِجَارَةٌ مِنْ السَّمَاءِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ حَتَّى قَالَ إِلَّا سُهَيْلُ ابْنُ بَيْضَاءَ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلَا كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَةُ فَذَكَرَ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ إِلَّا سُهَيْلُ ابْنُ بَيْضَاءَ وَقَالَ فِي قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِتْرَتُكَ وَأَصْلُكَ وَقَوْمُكَ تَجَاوَزْ عَنْهُمْ يَسْتَنْقِذْهُمْ اللَّهُ بِكَ مِنْ النَّارِ قَالَ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْتَ بِوَادٍ كَثِيرِ الْحَطَبِ فَأَضْرِمْهُ نَارًا ثُمَّ أَلْقِهِمْ فِيهِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ قَطَعَ اللَّهُ رَحِمَكَ حَدَّثَنَاه حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ عَنْ الْأَعْمَشِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَحْشٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْدَاءُ اللَّهِ كَذَّبُوكَ وَآذَوْكَ وَأَخْرَجُوكَ وَقَاتَلُوكَ وَأَنْتَ بِوَادٍ كَثِيرِ الْحَطَبِ فَاجْمَعْ لَهُمْ حَطَبًا كَثِيرًا ثُمَّ أَضْرِمْهُ عَلَيْهِمْ وَقَالَ سَهْلُ ابْنُ بَيْضَاءَ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی مرویات
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ جب غزوہ بدر ہوچکا تو نبی ﷺ نے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ ان قیدیوں کے بارے تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت صدیق اکبر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ یہ آپ ہی کی قوم اور گھرانے کے لوگ ہیں، انہیں زندہ رہنے دیجئے اور ان سے مانوس ہونے کی کوشش کیجئے، شاید اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہوجائے، حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان لوگوں نے آپ کو نکالا اور آپ کی تکذیب کی، انہیں قریب بلا کر ان کی گردنیں اتار دیجئے، حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کہنے لگے یا رسول اللہ! کوئی ایسی وادی تلاش کیجئے جہاں لکڑیاں زیادہ ہوں، انہیں اس وادی میں داخل کر کے ان لکڑیوں کو آگ لگا دیں، اس پر عباس کہنے لگے کہ تم نے رشتہ داری کو ختم کردیا، نبی ﷺ کوئی جواب دیئے بغیر اندر چلے گئے۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ نبی ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کی رائے پر عمل کریں گے، کچھ نے حضرت عمر ؓ اور کچھ نے عبداللہ بن رواحہ ؓ کی رائے کو ترجیح دیئے جانے کی رائے ظاہر کی، تھوڑی دیر بعد نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے معاملے میں بعض لوگوں کے دلوں کو نرم کردیتا ہے حتی کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا سخت کردیتے ہیں کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اور ابوبکر! آپ کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سی ہے جنہوں نے فرمایا تھا کہ جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا تو آپ بڑے بخشنے والے مہربان ہیں اور ابوبکر! آپ کی مثال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سی ہے جنہوں نے فرمایا تھا اگر آپ انہیں سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ انہیں معاف کردیں تو آپ بڑے غالب، حکمت والے ہیں اور عمر! تمہاری مثال حضرت نوح (علیہ السلام) کی سی ہے جنہوں نے فرمایا تھا، پروردگار! زمین پر کافروں کا کوئی گھر بھی باقی نہ چھوڑ اور عمر تمہاری مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سی ہے جنہوں نے دعاء کی تھی کہ پروردگار ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ ایمان ہی نہ لاسکیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں تم لوگ ضرورت مند ہو اور ان میں سے کوئی شخص فدیہ یا قتل کے بغیر واپس نہیں جائے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میرے منہ سے نکل گیا یا رسول اللہ! ﷺ سوائے سہیل بن بیضاء کے، کیونکہ میں نے انہیں اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر نبی ﷺ خاموش ہوگئے، مجھے اس دن سے زیادہ کبھی اس بات کا خوف محسوس نہیں ہوا کہ کہیں آسمان سے مجھ پر کوئی پتھر نہ گرپڑے، یہاں تک کہ خود نبی ﷺ نے بھی فرما دیا سوائے سہیل بن بیضاء کے، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نبی ﷺ کے لئے یہ بات مناسب نہ تھی کہ اپنے پاس قیدی رکھیں، یہاں تک کہ زمینیں خون ریزی نہ کرلیں، تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ بڑا غالب، حکمت والا ہے، اگر اللہ کے یہاں پہلے سے فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو تمہارے فدیہ لینے کے معاملے میں تم پر بڑا سخت عذاب آجاتا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
Top