مشکوٰۃ المصابیح - اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2238
وعن أنس بن مالك : أن حذيفة بن اليمان قدم على عثمان وكان يغازي أهل الشأم في فتح إرمينية وأذربيجان مع أهل العراق فأفزع حذيفة اختلافهم في القراءة فقال حذيفة لعثمان يا أمير المؤمنين أدرك هذه الأمة قبل أن يختلفوا في الكتاب اختلاف اليهود والنصارى فأرسل عثمان إلى حفصة أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف ثم نردها إليك فأرسلت بها حفصة إلى عثمان فأمر زيد بن ثابت وعبدالله بن الزبير وسعيد بن العاص وعبدالرحمن بن الحارث بن هشام فنسخوها في المصاحف وقال عثمان للرهط القرشيين الثلاث إذا اختلفتم في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش فإنما نزل بلسانهم ففعلوا حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلى حفصة وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف أن يحرق قال ابن شهاب وأخبرني خارجة بن زيد بن ثابت سمع زيد بن ثابت قال فقدت آية من الأحزاب حين نسخنا المصحف قد كنت أسمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقرأ بها فالتمسناها فوجدناها مع خزيمة بن ثابت الأنصاري ( من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه ) فألحقناها في سورتها في المصحف . رواه البخاري
حضرت عثمان کے ذریعہ قرآن کی ترتیب وجمع
حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان غنی ( رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت عثمان ؓ شام عراق کے آرمینیہ اور آذر بائیجان کی جنگوں کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی اور تیاری میں مصروف تھے حذیفہ کی قرأت کے بارے میں لوگوں کے اختلاف نے اضطراب میں اور خوف میں مبتلا کردیا تھا۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ لوگ بےمحابا آپس میں ایک دوسرے کی قرأت کا انکار کرتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے عرض کیا کہ امیرالمومنین اس امت کے بارے میں تدارک کی کوئی راہ نکالئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان ؓ نے ان کی بات سن کر حضرت حفصہ ؓ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ وہ صحیفے جو حضرت ابوبکر نے جمع کئے تھے ہمارے پاس بھیج دیجئے ہم ان کو نقل کرا کر یہ مصاحف آپ کے پاس بھیج دیں گے حضرت حفصہ ؓ نے وہ تمام صحیفے حضرت عثمان ؓ کے پاس بھیج دیئے حضرت عثمان ؓ نے انصار میں سے زید بن ثابت ؓ کو اور قریش میں عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاس اور عبداللہ بن حارث بن ہشام ؓ کو ان صحیفوں کو نقل کرنے پر مامور کیا چناچہ ان سب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کیا حضرت عثمان ؓ نے قریش کے تینوں حضرات سے فرمایا کہ اگر قرآن کے لغات میں کسی جگہ تم میں اور زید بن ثابت ؓ میں اختلاف ہوجائے تو وہاں لغت قریش کے مطابق لکھو کیونکہ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے چناچہ ان سب نے اس پر عمل کیا اور جب مصاحف میں صحیفے نقل کئے جا چکے تو حضرت عثمان ؓ نے ان صحیفوں کو تو حضرت حفصہ ؓ کے پاس بھیج دیا اور ان مصاحف میں جو نقل کئے تھے ایک ایک مصحف (اسلامی مملکت میں) ہر جگہ بھیج دیا اس کے ساتھ ہی یہ حکم جاری فرمایا کہ ان مصاحف کے علاوہ ہر اس مصحف یا صحیفے کو جلا دیا جائے جس میں قرآن لکھا ہوا ہے۔ حدیث کے ایک راوی حضرت ابن شہاب ؓ فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت ؓ کے صاحبزادے خارجہ نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنے والد حضرت زید بن ثابت ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس وقت کہ ہم (یعنی میں اور دونوں قریشی صحابہ سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث ؓ قرآن کریم (مصحف عثمانی میں) نقل کر رہے تھے مجھے سورت احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی۔ حالانکہ میں رسول کریم ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ چناچہ تلاش و جستجو کے بعد مجھے یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے پاس سے لکھی ہوئی ملی۔ اور وہ آیت یہ ہے۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ ) 33۔ الاحزاب 23)۔ پھر میں نے یہ آیت مصحف میں اس کی سورت یعنی سورت احزاب کے ساتھ ملا دی۔ (بخاری)

تشریح
کرمانی (رح) نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ لفظ یغازی معنی کے اعتبار سے یغزی کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے گویا اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ کان عثمان یجہز اہل الشام واہل العراق لغزوۃ ہاتین الناحیتین وفتحہما۔ حضرت عثمان ؓ ان دنوں اہل شام و اہل عراق کے لئے ان دونوں ملکوں کی جنگ اور ان کی فتح کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی میں مصروف تھے۔ لہٰذا حدیث میں اس لفظ کا ترجمہ بھی اسی وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے۔ نیز کرمانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ نواح روم (بیز نطین) میں ایک علاقہ کا نام تھا اور آذربائیجان تبریز کے علاقوں میں سے ایک علاقہ تھا۔ ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کان کا اسم اور یغازی فاعل حذیفہ کو لکھا ہے نیز ملا علی قاری نے قاموس کے حوالہ سے بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کا ایک علاقہ تھا لہٰذا اس طرح حدیث میں آذربائیجان تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ نے توریت و انجیل میں تغیر تبدل کیا اور اس طرح اپنی خواہشات کے مطابق کلام اللہ میں کمی و زیادتی کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں۔ اور وہ اس فتنہ میں مبتلا ہوجائیں اس لئے اس فتنہ کے برپا ہونے سے پہلے ہی آپ کچھ تدبیر کیجئے۔ چناچہ حضرت حذیفہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے سامنے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت عثمان ؓ نے تو اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا جن کی تعداد اس وقت پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ حضرت عثمان ؓ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن پڑھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی قرأت سے اختلاف کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کفر کے بالکل قریب ہے! لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے سدباب کے لئے آپ کیا چیز مناسب سمجھتے ہیں؟ حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دوں تاکہ کوئی اختلاف ہی پیدا نہ ہو، لوگوں نے کہا کہ جس چیز کو آپ مناسب سمجھتے ہیں وہ بہت بہتر ہے اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو ایک مصحفہ پر جمع کریں گے۔ چناچہ حدیث میں فارسل عثمان الخ (حضرت عثمان ؓ نے حضرت حفصہ ؓ کے پاس پیغام بھیجا) سے اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ اصل میں تو قرآن کریم لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ کی درخواست پر اس بات میں وسعت و فراخی عطا فرمائی گئی یعنی یہ اجازت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے۔ اب حضرت عثمان ؓ نے جب یہ دیکھا کہ یہ اختلاف لغت امت میں ایک زبردست انتشار اور دین میں ایک بڑے فتنہ کا باعث ہو رہا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ لغت قریش کے علاوہ اور تمام لغات منسوخ کردی جائیں اور سب لوگ قرآن کریم لغت قریش کے مطابق پڑھیں چناچہ حدیث میں مذکور حضرت عثمان ؓ کے الفاظ فاکتبوا بلسان قریش کا یہی مطلب ہے۔ سخاوی نے مصحف عثمانی میں قرآن کریم نقل کرتے وقت مذکورہ ناقلین کے درمیان واقع ہونے والے کچھ اختلافات کو بیان بھی کیا ہے۔ چناچہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک موقع پر لفظ تابوت کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ حضرت زید ؓ نے تو کہا کہ اسے التابوہ لکھا جائے مگر دوسرے حضرات کا کہنا تھا کہ التابوت لکھنا چاہئے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو ت کے ساتھ لکھو یعنی التابوت ہی لکھو۔ کیونکہ لغت قریش میں یہ لفظ یوں ہی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر ان لوگوں نے حضرت عثمان ؓ سے لم یتسن کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں ہ لکھو۔ اس مصحف کے علاوہ ہر اس صحیفہ یا مصحف کو جلا دیا جائے الخ۔ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ہر صحیفہ سے مراد تو وہ صحیفے ہیں۔ جو حضرت حفصہ ؓ کے پاس تھے اور مصحف سے مراد وہ صحیفے ہیں جو دیگر لوگوں نے جمع کئے تھے اور وہ ان کے پاس تھے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملہ فی کل صحیفۃ او مصحف میں لفظ او راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہو۔ حدیث کے ظاہری مفہوم میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ ؓ کے پاس جو صحیفے تھے انہیں حضرت عثمان ؓ نے ایفاء وعدہ کے پیش نظر حضرت حفصہ ؓ کے پاس واپس بھیج دیا تھا مگر پھر انہیں بھی دوبارہ حاصل کر کے جلا ڈالا تھا۔ لیکن سخاوی نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے کہ حضرت عثمان ؓ جب مصحف عثمانی کی تکمیل سے فارغ ہوئے تو حضرت حفصہ ؓ کے پاس ان کے صحیفے واپس بھجوا دئیے ان صحیفوں اور اپنے مصحف کے علاوہ بقیہ تمام صحیفے انہوں نے نذر آتش کرا دئیے چناچہ وہ صحیفے حضرت حفصہ ؓ کے پاس رہے جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے وہ صحیفے جلانے کے لئے حضرت حفصہ ؓ سے منگوا بھیجے مگر انہوں نے دینے سے انکار کردیا۔ حضرت حفصہ ؓ کے انتقال کے بعد مروان نے وہ صحیفے ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منگا کر اس خوف سے جلا دئیے کہ یہ صحیفے اگر کبھی باہر آگئے اور لوگوں نے دیکھا تو پھر اختلاف کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حضرت عثمان ؓ نے جو مصحف تیار کر کے اطراف عالم میں بھیجے تھے ان کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان مصاحف کی تعداد پانچ تھی۔ لیکن ابوداؤد (رح) کہ میں نے ابوحاتم سجستانی سے سنا کہ ان کی تعداد سات تھی۔ ان میں سے ایک مکہ بھیجا گیا (ایک شام ایک یمن ایک بحرین ایک بصرہ ایک کوفہ اور ایک مدینہ میں رکھا گیا۔
Top