مشکوٰۃ المصابیح - اختلافات قرأت ولغات اور قرآن جمع کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2237
زمانہ رسالت میں قرآن کریم کس شکل میں تھا
آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قرآن کریم یوں تو پورا لکھا ہوا تھا لیکن مصحف میں اور یک جا نہیں تھا بلکہ متفرق طور پر لکھا ہوا تھا چناچہ کچھ حصہ کسی کے پاس کھجور کی شاخوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس پتھروں کے ٹکڑوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس جھلی کے ٹکڑوں پر اور کچھ حصہ کسی کے پاس چوڑی ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا کیونکہ قرآن کریم جیسے جیسے نازل ہوتا آنحضرت ﷺ اپنے کا تبوں سے مذکورہ بالا چیزوں میں جو چیز بھی دستیاب ہوتی اس پر قلم بند کرا لیا کرتے تھے آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر فاروق ؓ کے مشورہ سے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی گئی قرآن کے ان متفرق حصوں کو یکجا اور جمع کیا لہٰذا یہ ایسا ہی ہوا کہ وہ اوراق کہ جن میں قرآن لکھا ہوا متفرق طور پر پائے جائیں اور پھر انہیں جمع کردیا جائے۔ اسی طرح آج کل قرآن کریم سورتوں کی جس ترتیب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں سورتوں کی ترتیب یہ نہیں تھی بلکہ سورتوں کی یہ ترتیب آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہ کے اجتہاد سے عمل میں آئی ہے۔ ہاں آیتوں کی ترتیب آنحضرت ﷺ کے سامنے رہی اور آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ہی عمل میں آگئی تھی اور اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حسب موقع کوئی آیت لاتے تو یہ بھی فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں آیت کے بعد رکھا جائے چناچہ لوح محفوظ میں قرآن کریم آیتوں کی اس ترتیب کے مطابق لکھا ہوا ہے۔ وہاں سے قرآن کریم آسمان دنیا پر لایا گیا۔ پھر وہاں سے حسب موقع اور حسب ضرورت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سورتیں آنحضرت ﷺ کے پاس لاتے تھے۔ حاصل یہ کہ نزول قرآن کی ترتیب وہ نہیں تھی جو موجودہ ترتیب تلاوت ہے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک مرتبہ پورے قرآن کا دور ترتیب نزول کے مطابق کیا کرتے تھے اور جس سال آنحضرت ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اس سال کے رمضان میں انہوں نے دو مرتبہ دور کیا۔ لم اجدھا مع احد غیرہ۔ کا مطلب یہ ہے کہ سورت براۃ کا آخری حصہ میں نے ابوخزیمہ کے علاوہ اور کسی کے پاس لکھا ہوا نہیں پایا ویسے تو جس طرح پورا پورا قرآن حفاظ صحابہ کے سینوں میں محفوظ تھا اسی طرح سورت براۃ کا یہ آخری حصہ بھی ان کے سینوں میں محفوظ تھا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ ہی میں صحابہ مثلاً ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابودرداء وغیرہ ؓ عنھم ورضوا عنہ نے پورا کلام اللہ یاد کرلیا تھا۔ حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کے حکم کے مطابق جب قرآن کریم کو جمع کرلیا اور اس پر تمام صحابہ کا اتفاق بھی ہوگیا تو اسے متعدد صحیفوں یعنی اجزاء کی شکل میں منتقل کیا گیا ابھی تک وہ ایک مصحف کی شکل اختیار نہیں کر پایا تھا چناچہ وہ صحیفے یا اجزاء حضرت ابوبکر ؓ کے پاس رہتے تھے حضرت ابوبکر ؓ کے بعد یہ صحیفے حضرت عمر ؓ کے پاس کی ان کی زندگی بھر رہے پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ ؓ کے پاس آگئے۔ اب حضرت عثمان ؓ نے ان صحیفوں یعنی پورے قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کیا اور کئی مصحف لکھا کر مملکت اسلام کے کئی شہروں میں بھیجے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔
Top