مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1847
وعن أنس بن مالك : أن رجلا من الأنصار أتى النبي صلى الله عليه و سلم يسأله فقال : أما في بيتك شيء ؟ قال بلى حلس نلبس بعضه ونبسط بعضه وقعب نشرب فيه من الماء . قال : ائتني بهما قال فأتاه بهما فأخذهما رسول الله صلى الله عليه و سلم بيده وقال : من يشتري هذين ؟ قال رجل أنا آخذهما بدرهم قال : من يزيد على درهم ؟ مرتين أو ثلاثا قال رجل أنا آخذهما بدرهمين فأعطاهما إياه وأخذ الدرهمين فأعطاهما الأنصاري وقال : اشتر بأحدهما طعاما فانبذه إلى أهلك واشتر بالآخر قدوما فأتني به . فأتاه به فشد فيه رسول الله صلى الله عليه و سلم عودا بيده ثم قال له اذهب فاحتطب وبع ولا أرينك خمسة عشر يوما . فذهب الرجل يحتطب ويبيع فجاء وقد أصاب عشرة دراهم فاشترى ببعضها ثوبا وببعضها طعاما فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : هذا خير لك من أن تجيء المسألة نكتة في وجهك يوم القيامة إن المسألة لا تصلح إلا لثلاثة لذي فقر مدقع أو لذي غرم مفظع أو لذي دم موجع . رواه أبو داود وروى ابن ماجه إلى قوله : يوم القيامة
کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انتہائی محتاجگی کے وقت جائز ہے۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کسی چیز کا سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ اس نے عرض کیا کہ صرف ایک موٹی سی کملی ہے جس میں سے کچھ حصہ اوڑھتا ہوں اور کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اس کے علاوہ ایک پیالہ بھی ہے جس میں پانی پیتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا ان دونوں چیزوں کو لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا، آنحضرت ﷺ نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ ان چیزوں کو کون خریدتا ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدنے کے لئے تیار ہوں! آپ ﷺ نے فرمایا ان چیزوں کو ایک درہم سے زیادہ میں کون خریدنے والا ہے؟ آپ ﷺ نے یہ دو یا تین بار فرمایا ایک شخص نے کہا کہ میں ان چیزوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں آپ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کو دے دیں اور اس سے دو درہم لے کر انصاری کو دئیے اور اس سے فرمایا کہ اس میں سے ایک درہم کا کھانے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ وہ شخص کلہاڑی خرید کر آپ ﷺ کے پاس لایا آپ ﷺ نے اس کلہاڑی میں اپنے دس مبارک سے ایک مضبوط لکڑی لگا دی اور پھر اس سے فرمایا کہ اسے لے کر جاؤ لکڑیاں کاٹ کر جمع کرو اور انہیں فروخت کرو، اب اس کے بعد میں تمہیں پندرہ دن تک یہاں نہ دیکھوں یعنی اب یہاں نہ رہو جا کر اپنے کام میں مشغول ہوجاؤ اور محنت کرو چناچہ وہ شخص چلا گیا اور لکڑیاں جمع کر کر کے فروخت کرنے لگا کچھ دنوں کے بعد جب وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آیا تو کہاں وہ پہلے آپ ﷺ سے مانگنے آیا تھا درہم اب وہ دس درہم کا مالک تھا، اس نے ان درہموں میں سے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ خرید لیا، آنحضرت ﷺ نے اس کی حالت کی اس تبدیلی کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ صورتحال تمہارے لئے بہتر ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ کل قیامت کے دن تم اس حالت میں آؤ کہ تمہارے سوال تمہارے منہ پر برے نشان یعنی زخم کی صورت میں ہو اور یہ یاد رکھو کہ صرف تین طرح کے لوگوں کو سوال کرنا مناسب ہے ایک تو اس محتاج کے لئے کہ جس کو مفلسی نے زمین پر گرا دیا ہو دوسرے اس قرض دار کے لئے جو بھاری اور عدم ادائیگی کی صورت میں ذلیل کرنے والے قرض کے بوجھ سے دبا ہو اور تیسرے صاحب خون کے لئے جو درد پہنچائے یعنی اس شخص کے لئے جس پر دیت واجب ہو خواہ اس نے خود کسی ناحق خون کیا ہو اور اس کا خون بہا اس کے ذمہ ہو یا کسی دوسرے شخص نے کوئی خون کردیا ہو اور اس کی دیت اس نے اپنے ذمہ لی ہو مگر اس کی ادائیگی کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ اس خون بہا کے بقدر کسی سے مانگ کر ادائیگی کر دے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو یوم القیامۃ تک نقل کیا ہے۔
Top