مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1848
وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أصابته فاقة فأنزلها بالناس لم تسد فاقته . ومن أنزلها بالله أوشك الله له بالغنى إما بموت عاجل أو غنى آجل . رواه أبو داود والترمذي
صرف اللہ سے اپنی حاجت بیان کرنی چاہئے
حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص فاقہ یعنی سخت حاجت سے دوچار ہو اور اس کو لوگوں کے سامنے بطور شکایت بیان کر کے ان سے حاجت روائی کی خواہش کرے تو اس کی حاجت پوری نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے صرف اللہ سے اپنی حاجت کو بیان کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ اور اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی یا تو موت سے ہمکنا کر دے تاکہ وہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے نجات پا کر رحمت الٰہی سے ہمکنار ہو یا اسے کچھ دنوں میں مالدار بنا دے گا تاکہ وہ اپنی حاجت پوری کر کے اطمینان محسوس کرے۔ (ابو داؤد، ترمذی)

تشریح
حدیث کے آخری جملے اوغنی اٰجل میں لفظ اٰجل مصابیح کے اکثر نسخوں اور جامع الاصول میں عین سے یعنی عاجل مرقوم ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا۔ مگر خود جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا مگر خود سنن ابوداؤد اور ترمذی میں کہ جہاں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے یہ لفظ اٰجل ہے ہے اور صحیح بھی یہی ہے چناچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی اس آیت کریم کی روشنی میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ۔ آیت (وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا۔ وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه) 65۔ الطلاق 3-2)۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کی جگہ پیدا فرما دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔
Top