مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3324
وعن جابر بن عتيك أن نبي الله صلى الله عليه و سلم قال : من الغيرة ما يحب الله ومنها ما يبغض الله فأما التي يحبها الله فالغيرة في الريبة وأما التي يبغضها الله فالغيرة في غير ريبة وإن من الخيلاء ما يبغض الله ومنها ما يحب الله فأما الخيلاء التي يحب الله فاختيال الرجل عند القتال واختياله عند الصدقة وأما التي يبغض الله فاختياله في الفخر وفي رواية : في البغي . رواه أحمد وأبو داود والنسائي
غیرت بعض صورتوں میں پسندیدہ اور بعض صورتوں میں ناپسندیدہ ہے
اور حضرت جابر ابن عتیک کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنی بیوی اور لونڈی کے بارے میں) بعض غیرت کو تو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور بعض غیرت کو ناپسند کرتا ہے چناچہ جس غیرت کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے وہ شک و شبہ کی جگہ پیدا ہونے والی غیرت ہے ( مثلا بیوی یا لونڈی غیر مردوں کے سامنے آتی ہے یا غیر مرد اس کے پاس آتے ہیں اور وہ ان سے ہنسی مزاق کرتی ہے تو اس موقع پر خاوند جو غیرت محسوس کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور جس غیرت کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ غیرت ہے جو کسی شک و شبہ کی وجہ کے بغیر پیدا ہوئی ہو (مثلا کسی قرینہ وسبب کے بغیر خاوند کے دل میں بیوی کے کردار کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوجائے اور پھر اس پر غیرت محسوس کرے) اسی طرح بعض تکبر کو تو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند فرماتا ہے چناچہ جس تکبر کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے وہ لڑائی کے وقت آدمی کا تکبر کرنا ہے ( یعنی جہاد میں جب کفار سے مقابلہ ہو تو اپنی قوت و برتری اور کفار کی حقارت و کمتری کے اظہار کے لئے خوب اکڑے اور اپنی بڑائی و شجاعت کو بڑے فخر و غرور کے ساتھ بیان کرے) اور وہ تکبر بھی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں ہو (یعنی جب صدقہ و خیرات دے تو خوشدلی اور بےپروائی کے ساتھ دے اور زیادہ سے زیادہ دینے کو بھی تھوڑا جانے) اور جس تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کرتا ہے وہ اپنے نسب پر فخر کا تکبر ہے اور ایک روایت میں فی الفخر کی بجائے فی البغی ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ ظلم کا تکبر ہے یعنی وہ تکبر جو بلا کسی حق استحقاق کیا جائے جس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں) (احمد ابوداؤد نسائی)

تشریح
اپنے نسب پر فخر کا تکبر یہ ہے کہ جو شخص اعلی حسب و نسب اور اچھے خاندان کا ہو وہ یہ کہتا پھرے کہ مجھے نسب میں برتری اور امتیاز حاصل ہے اور میرے باپ دادا اعلی نسل و خاندان کے افراد ہونے کی وجہ سے بزرگ و افضل ہیں یہ ایسا تکبر ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو برتری و فوقیت اور بزرگی و فضیلت اسی شخص کو حاصل ہے جو دین کے اعتبار سے سب میں ممتاز ہو چناچہ ارشاد ربانی ہے ا یت (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگ وبلند مرتبہ وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے مشکوۃ کے ایک نسخہ میں اس روایت میں فی الفخر کی بجائے فی الفقر ہے یعنی جس تکبر کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے وہ فقر کا تکبر ہے مطلب یہ کہ اللہ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص حالت فقر میں اپنی قناعت اور اپنے صبر و توکل پر تکبر کرے چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ تکبر اس تکبر سے بدتر ہے جو اپنے غنا اور اپنی ثروت پر کیا جاتا ہے لیکن فقر کا تکبر اس صورت میں برا اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے جب کہ وہ فقراء کے مقابلہ پر کیا جائے ہاں اگر وہ تکبر امراء و اغنیاء کے مقابلہ پر ہو تو اچھا اور پسندیدہ ہے کیونکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ کہا گیا ہے
Top