مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3325
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قام رجل فقال : يا رسول الله إن فلانا ابني عاهرت بأمه في الجاهلية فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا دعوة في الإسلام ذهب أمر الجاهلية الولد للفراش وللعاهر الحجر . رواه أبو داود
ولد الزنا کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا
حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص مجلس نبوی میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! فلاں میرا لڑکا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا رسول کریم ﷺ نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی گئی گزری بات زمانہ اسلام میں دعوی نہیں ہوسکتا ( یعنی یہ بات زمانہ جاہلیت ہی کے ساتھ مخصوص تھی اور جو بچہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتا تھا اس کا نسب زانی اپنے ساتھ جوڑ لیتا تھا اب زمانہ اسلام میں یہ بات درست نہیں بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لئے پتھر یعنی محرومی ہے یا سنگساری (ابوداؤد)

تشریح
صاحب فراش سے وہ شخص مراد ہے جو ولد الزنا کی ماں کا خاوند یا مالک ہو مطلب یہ ہے کہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں کسی کی ملک میں ہو تو اس کے زنا کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوگا اس کا نسب اس کے خاوند یا مالک سے ثابت ہوگا اور اگر وہ عورت کسی کے نکاح یا کسی کی ملک میں نہ ہو تو پھر بچہ ماں ہی کی طرف منسوب ہوگا بہرصورت زانی کا اس بچہ سے کوئی نسبی تعلق نہیں ہوگا۔
Top