مشکوٰۃ المصابیح - فضائل قرآن کا بیان - حدیث نمبر 2184
وعن خالد بن معدان قال : اقرؤوا المنجية وهي ( آلم تنزيل ) فإن بلغني أن رجلا كان يقرؤها ما يقرأ شيئا غيرها وكان كثير الخطايا فنشرت جناحها عليه قالت : رب اغفر له فإنه كان يكثر قراءتي فشفعها الرب تعالى فيه وقال : اكتبوا له بكل خطيئة حسنة وارفعوا له درجة . وقال أيضا : إنها تجادل عن صاحبها في القبر تقول : اللهم إن كنت من كتابك فشفعني فيه وإن لم أكن من كتابك فامحني عنه وإنها تكون كالطير تجعل جناحها عليه فتشفع له فتمنعه من عذاب القبر وقال في ( تبارك ) مثله . وكان خالد لا يبيت حتى يقرأهما . وقال طاووس : فضلتا على كل سورة في القرآن بستين حسنة . رواه الدارمي
الم تنزیل پڑھنے کی برکت
حضرت خالد بن معدان سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (رات کے ابتدائی حصہ میں) اس سورت کو پڑھا کرو جو (قبر و حشر کے) عذاب سے نجات دینے والی ہے اور وہ سورت الم تنزیل ہے کیونکہ (صحابہ سے) مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص تھا جو یہی سورت پڑھا کرتا تھا وہ اس سورت کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتا تھا (یعنی اس سورت کے علاوہ اور کسی چیز کو ورد نہیں قرار دیا تھا) اور وہ شخص بہت زیادہ گنہگار تھا، چناچہ (جب اس شخص کا انتقال ہوا تو) اس سورت نے اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے اور فریاد کی کہ اے میرے پروردگار! اس شخص کی بخشش فرما کیونکہ یہ مجھے بہت زیادہ پڑھا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں اس سورت کی شفاعت قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ (اس کے نامہ اعمال میں) اس کے ہر گناہ کے بدلہ نیکی لکھ دو اور اس کے درجات بلند کردو، آنحضرت ﷺ یہ بھی فرماتے تھے کہ بیشک یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی طرف سے قبر میں جھگڑتی ہے کہ یا الٰہی! اگر میں تیری کتاب (قرآن کریم) میں سے ہوں جو لوح محفوظ میں لکھا ہے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور اگر (بفرض محال) میں تیری کتاب میں سے نہیں ہوں تو مجھے اس میں سے مٹا دے۔ نیز حضرت خالد نے فرمایا یہ سورت (قبر میں) ایک پرندہ کی مانند آئے گی اور اس پر اپنے بازو پھیلا کر اس کے لئے (اللہ تعالیٰ سے) شفاعت کرے گی۔ حضرت خالد نے سورت تبارک الذی بیدہ الملک کے بارے میں بھی یہی کہا ہے کہ (اس سورت کی بھی یہی تاثیر اور برکت ہے) حضرت خالد کا معمول یہ تھا کہ وہ دونوں سورتیں پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کریم کی ہر سورت پر ساٹھ نیکیوں کے ساتھ فضیلت بخشی گئی ہے۔ (دارمی یعنی ان دونوں روایتوں کو ایک حضرت خالد سے اور دوسری حضرت طاؤس سے منقول ہے، دارمی نے نقل کیا ہے)۔

تشریح
حضرت خالد ایک جلیل القدر تابعی ہیں ستر صحابہ سے ملاقات اور صحبت کا شرف حاصل ہے اسی طرح حضرت طاؤس بھی مشاہیر تابعین میں سے ہیں لہٰذا حضرت خالد اور حضرت طاؤس دونوں سے منقول مذکورہ بالا روایتیں اگرچہ مرسل ہیں (کہ یہاں صحابی کا واسطہ ذکر نہیں کیا گیا ہے) لیکن حکم میں مرفوع ہی کے ہیں کیونکہ اس قسم کی باتیں صرف آنحضرت ﷺ ہی سے معلوم ہوسکتی ہیں جو صحابہ کے ذریعہ تابعین تک پہنچتی ہیں اس لئے یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ دونوں حضرات کے اپنے اقوال نہیں بلکہ مرفوع روایتیں ہیں۔ اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت یا اس کا ثواب پرندہ کی صورت اختیار کر گیا اور اپنے بازو اپنے پڑھنے والے پر پھیلا دئیے تاکہ اس پر سایہ کرلے یا یہ کہ اس نے اپنی رحمت کے بازو پھیلا دئیے یعنی اسے اپنی پناہ میں لے لیا اور اس کی طرف سے شفاعت و وکالت کی۔ قبر میں جھگڑتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے مداومت کے ساتھ تو یہ سورت اس کے لئے عذاب کی تخفیف یا قبر میں فراخی و وسعت یا اسی قسم کی دوسری آسانی و سہولت کی شفاعت و سفارش کرتی ہے۔ حضرت طاؤس کی روایت کے یہ الفاظ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی ہر سورت پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس صحیح روایت کے منافی نہیں ہے کہ سورت بقرہ، سورت فاتحہ کے بعد قرآن کی تمام سورتوں سے افضل ہے کیونکہ سورت بقرہ کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں بہت عمدہ اور اعلیٰ مضامین مذکور ہیں اور ان دونوں سورتوں کو اس جہت و اعتبار سے فضیلت حاصل ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہیں۔
Top