مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3785
وعنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : ستفتح عليكم الروم ويكفيكم الله فلا يعجز أحدكم أن يلهو بأسهمه . رواه مسلم
دشمن جس چیز کو اپنی طاقت کا ذریعہ بنائے تم بھی اس میں مہارت حاصل کرو
اور حضرت عقبہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب تمہارے لئے روم کو فتح کردیا جائے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اہل روم کی شرانگیزیوں سے کفایت کرے لہٰذا خبردار! تم میں سے کوئی شخص اپنے تیروں کے ساتھ کھیلنے میں سستی نہ کرے۔ (مسلم)

تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں روم والے عام طور پر تیر اندازی ہی کے ذریعہ جنگ کرتے ہیں اور چونکہ تمہیں ان کے ساتھ جنگ کرنی ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم لوگ تیر اندازی کو اپنا مشغلہ بنا لو اور اس کی مشق کے ذریعہ اس کے گر اور کمالات سیکھتے رہو تاکہ تم ان سے جنگ کرنے پر قادر ہو سکو اور اللہ تمہیں ان سے مڈبھیڑ کے وقت اپنی مدد ونصرت کے ساتھ رکھے۔ یا آنحضرت ﷺ کی یہ مراد تھی کہ تیر اندازی کی مشق کو ترک نہ کرو بلکہ جنگ میں فتح کے بعد بھی اس کا مشغلہ جاری رکھو اور اس بات پر غرور اور اطمینان کر کے نہ بیٹھ جاؤ کہ اب تو روم فتح ہوگیا ہے اس مشغلہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کیونکہ تیر اندازی کی ضرورت ہمیشہ اور ہر جنگ کے وقت پڑنے والی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ ہدایت پیش بندی کے طور پر دی تھی، چناچہ اس پر پوری طرح عمل کیا گیا اگرچہ اہل روم کے قتال کے موقع پر اس کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو روم پر بڑی آسانی کے ساتھ فتح عطا فرما دی تھی۔ تیر اندازی کی مشق کو لہو یعنی کھیل سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ کسی بھی چیز کی مشق صورت کے اعتبار سے کھیل ہی کے درجے کی چیز ہوتی ہے دوسرے اس کے ذریعہ لوگوں کو تیر اندازی مشق کی ترغیب دلانا مقصود تھا کہ کسی چیز پر کھیل کا نام آجائے تو اس کی طرف جلدی مائل ہوجانا انسانی خصلت میں داخل ہے۔
Top