سنن ابنِ ماجہ - حدود کا بیان - حدیث نمبر 2579
حدیث نمبر: 2579
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الدَّرَاوَرْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَة، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ قَوْمًا أَغَارُوا عَلَى لِقَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَطَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ.
جورہزنی کرے اور زمین پر فسادبرپا کرے۔
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں پر حملہ کردیا، چناچہ آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/المحاریة (تحریم الدم) ٧ (٤٠٤٣)، (تحفة الأشراف: ١٧٠٣٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ پیاس کے مارے تڑپتے رہے لیکن کسی نے ان کو پانی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ مرگئے، یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا تشدد کے لئے نہ تھا بلکہ اس لئے تھا کہ انہوں نے کئی کبیرہ گناہ کئے تھے، ارتداد، قتل، لوٹ پاٹ، ناشکری وغیرہ۔ بعضوں نے کہا کہ یہ قصاص میں تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم کے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، غرض بدکار، بدفعل، بےرحم اور ظالم پر ہرگز رحم نہ کرنا چاہیے، اور اس کو ہمیشہ سخت سزا دینی چاہیے تاکہ عام لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں، اور یہ عام لوگوں پر عین رحم و کرم ہے کہ ظالم کو سخت سزا دی جائے، اور ظالم پر رحم کرنا غریب رعایا پر ظلم ہے۔
It was narrated from Aisha (RA) that some people raided the she-camels of the Messenger of Allah, so the Prophet ﷺ cut off their hands and feet (on opposite sides) and lanced (gouged out) their eyes.
Top