Tafseer-e-Usmani - Nooh : 24
وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا١ۚ۬ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا
وَقَدْ : اور تحقیق اَضَلُّوْا : انہوں نے بھٹکا دیا كَثِيْرًا : بہت بسوں کو وَلَا : اور نہ تَزِدِ : تو اضافہ کر الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو اِلَّا ضَلٰلًا : مگر گمراہی میں
اور بہکا دیا بہتوں کو اور تو نہ زیادہ کرنا بےانصافوں کو مگر بھٹکنا6 
6 حضرت شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں " یعنی (بھٹکتے رہیں) کوئی تدبیر (سیدھی) بن نہ پڑے۔ " اور حضرت شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں کہ " استدراج کے طور پر بھی ان کو اپنی معرفت سے آشنا نہ کر۔ " اور عامہ مفسرین نے ظاہری معنے لیے ہیں۔ یعنی اے اللہ ان ظالموں کی گمراہی کو اور بڑھا دیجیے تاکہ جلد شقاوت کا پیمانہ لبریز ہو کر عذاب الٰہی کے مورد بنیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بددعا ان کی ہدایت سے بکلی مایوس ہو کر کی۔ خواہ مایوسی ہزار سالہ تجربہ کی بنا پر ہو یا حق تعالیٰ کا یہ ارشاد سن چکے ہوں گے۔ (اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ ) 11 ۔ ہود :36) بہرحال ایسی مایوسی کی حالت میں تنگدل اور غضبناک ہو کر یہ دعاء کرنا کچھ مستبعد نہیں۔ حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) لکھتے ہیں کہ جب کسی شخص یا جماعت کے راہ راست پر آنے کی طرف سے قطعاً مایوسی ہوجائے اور نبی ان کی استعداد کو پوری طرح جانچ کر سمجھ لے کہ خیر کے نفوذ کی ان میں مطلق گنجائش نہیں بلکہ ان کا وجود ایک عضو فاسد کی طرح ہے جو یقینا باقی جسم کو بھی فاسد اور مسموم کر ڈالے گا تو اس وقت ان کے کاٹ ڈالنے اور صفحہ ہستی سے محو کردینے کے سوا دوسرا کیا علاج ہے۔ اگر قتال کا حکم ہو تو قتال کے ذریعہ سے ان کو فنا کیا جائے یا قوت توڑ کر ان کے اثربد کو متعدی نہ ہونے دیا جائے۔ ورنہ آخری صورت یہ ہے کہ اللہ سے دعاء کی جائے کہ وہ ان کے وجود سے دنیا کو پاک کر دے اور ان کے زہریلے جراثیم سے دوسروں کو محفوظ رکھے۔ کما قال۔ (اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ ) 71 ۔ نوح :27) بہرحال نوح کی دعاء اور اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء جو سورة " یونس " میں گزری، اسی قبیل سے تھی۔ واللہ اعلم۔
Top