Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
جو لوگ یقین لے آئے اور نہیں ملا دیا انہوں نے اپنے یقین میں کوئی نقصان انہی کے واسطے ہے دلجمعی اور وہی ہیں سیدھی راہ پر6 
6  احادیث صحیحہ میں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہاں ظلم کی تفسیر شرک سے فرمائی جیسا کہ سورة لقمان میں ہے اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ گویا ظلم کی تنوین تعظیم کے لئے ہوئی تو حاصل مضمون یہ ہوگا کہ مامون و مہتدی صرف وہ ہی لوگ ہوسکتے ہیں جو یقین لائے اس طرح کہ اس میں شرک کی ملاوٹ بالکل نہ ہو ' اگر خدا پر یقین رکھنے کے باوجود شرک کو نہ چھوڑا تو وہ نہ ایمان شرعی ہے نہ اس کے ذریعہ سے امن و ہدایت نصیب ہوسکتی ہے۔ وَہُوَکَمَا قَالَ (وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ ) 12 ۔ یوسف :106) (چونکہ ایمان شرک کا جمع ہونا بظاہر مستعبد تھا اس لئے مترجم محقق قدس سرہ نے بغرض تسہیل و تفہیم ایمان کا ترجمہ یقین سے اور ظلم کا نقصان سے کیا جو لغت عرب کے عین مطابق ہے۔ کما قولہ تعالیٰ (وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَـيْــــًٔـا) 18 ۔ الکہف :33) اور اس نقصان سے مراد شرک ہی لیا جائے گا جیسا کہ احادیث میں تصریح ہوچکی اور خود نظم کلام میں لفظ لبس اس کا قرینہ ہے اس کی مفصل تحقیق خود مترجم (رح) مقدمہ میں فرما چکے ہیں وہاں دیکھ لیا جائے۔
Top