Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم دکھانے لگے ابراہیم کو عجائبات آسمانوں اور زمین کے اور تاکہ اس کو یقین آجاوے7
7 یعنی جس طرح بت پرستی کی شناعت و قبح ہم نے ابراہیم پر ظاہر کر کے اس کی قوم کو قائل کیا اسی طرح علویات و سفلیات کے نہایت محکم اور عجیب و غریب نظام ترکیبی کی گہرائیوں پر بھی اس کو مطلع کردیا تاکہ اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے وجود و وحدانیت وغیرہ پر اور تمام مخلوقات سماوی و ارضی کے محکومانہ عجزو بیچارگی پر استدلال اور اپنی قوم کے عقیدے کواکب پرستی و ہیاکل سازی کو علیٰ وجہ البصیرت رد کرسکے اور خود بھی حق الیقین کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہو بلاشبہ عالم کا یہ اکمل و احکم اور بہترین نظم و نسق ہی ایسی چیز ہے جسے دیکھ کر بالبداہت اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس عظیم الشان مشین کا بنانے اور چلانے والا ' اس کے پرزوں کو نہایت مضبوط ترتیب و سلیقہ سے جوڑنے والا اور ہزاروں لاکھوں برس سے ایک ہی انداز پر اس کی حفاظت کرنے والا ' بڑا زبردست حکیم و قدیر صانع ہے جس کے حکیمانہ تصرف اور نفوذ و اقتدار سے مشین کا کوئی چھوٹا بڑا پرزہ باہر نہیں جاسکتا۔ یہ کام یونہی بخت و اتفاق یا بےشعور طبیعت یا اندھے بہرے مادہ سے نہیں ہوسکتا۔ یورپ کا مشہورو معروف حکیم نیوٹن کہتا ہے کہ کواکب کی حرکات حالیہ ممکن نہیں کہ محض عام قوت جاذبہ کے فعل کا نتیجہ ہوں یہ قوت جاذبہ تو کواکب کو شمس کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس لئے کواکب کو سورج کے گرد حرکت دینے والا ضروری ہے کہ خدائی ہاتھ ہو۔ جو باوجود قوت جاذبہ کی عام کشش کے ان کو اپنے مدارت پر قائم رکھ سکے۔ کوئی سبب طبعی ایسا نہیں بتلایا جاسکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کردیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگاتے وقت ہمیشہ معین مدارت پر اور ایک خاص جہت ہی میں حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبعی نہیں جس سے ہم ان منظم و محفوظ نوامیس کو وابستہ کرسکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم وعلیم کے ماتحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی کمیات سے پورا پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کس مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہوگی۔ اسی نے اپنے زبردست اندازے سے کواکب اور شمس کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں کہ ایک کا دوسرے سے تصادم و تزاحم نہ ہو اور عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہوجائے۔ ہر چھوٹا بڑا سیارہ نہایت مضبوط نظام کے ماتحت معین وقت پر طلوع و غروب ہوتا ہے جب کوئی سیارہ غروب ہو کر دنیا کو اپنے اس فیض و تاثیر سے محروم کر دے جو طلوع کے وقت حاصل تھا تو نہ اس ستارہ کی اور نہ کسی مخلوق کی قدرت میں ہے کہ ایک منٹ کے لئے اسے واپس لے آئے یا غروب سے روک دے یہ رب العالمین ہی کی شان ہے کہ کسی وقت بھی کسی قسم کے افاضہ سے عاجز نہیں (وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ 38؀ۭ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ 39؀ لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ 40؀) 36 ۔ یس :38-39-40) یہ علویات کا حال ہے تو سفلیات کا اسی سے اندازہ کرلو یہ ہی تکوینی عجائب اور ملکوت السمٰوٰات والارض ہیں جن کے دیکھنے سے ابراہیم کی زبان پر ( لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ ) 6 ۔ الانعام :76) اور (اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 6 ۔ الانعام :79) بےساختہ جاری ہوگیا جو اگلی آیات میں مذکور ہے) کما تدل علی الفاء فی قول تعالیٰ (فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًا ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّيْ ۚ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ ) 6 ۔ الانعام :76)
Top