Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 28
بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
بَلْ : بلکہ بَدَا لَهُمْ : ظاہر ہوگیا ان پر مَّا : جو كَانُوْا يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلَوْ : اور اگر رُدُّوْا : واپس بھیجے جائیں لَعَادُوْا : تو پھر کرنے لگیں لِمَا نُهُوْا : وہی روکے گئے عَنْهُ : اس سے و : اور َاِنَّهُمْ : بیشک وہ لَكٰذِبُوْنَ : جھوٹے
کوئی نہیں بلکہ ظاہر ہوگیا جو چھپاتے تھے پہلے1 اور اگر پھر بھیجے جاویں تو پھر بھی وہی کام کریں جس سے منع کئے گئے تھے اور وہ بیشک جھوٹے ہیں2
1 یعنی اب بھی دنیا میں واپس جانے کی تمنا عزم صحیح اور ایمانی رغبت و شوق سے نہیں بلکہ جب مجازات و مکافات عمل کا وہ منظر سامنے آگیا جسے باوجود وضوح ادلہ انکار کے پردہ میں چھپایا کرتے تھے، عذاب الہٰی کو آنکھوں سے دیکھ لیا، تمام اعمال شنیعہ کا جو چھپ چھپ کر کئے جاتے تھے راز فاش ہوگیا، ابھی ابھی جو ( وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) 6 ۔ الانعام :23) کہہ چکے تھے اس جھوٹ کی بھی قلعی کھل گئی غرضیکہ بدی کے جو اثرات مخفی اور غیر مرئی طور پر اندر ہی اندر ان نالائقوں کے دلوں میں پرورش پا رہے تھے وہ دردناک عذاب کی صورت میں ممثل ہو کر سامنے آگئے، تو محض جان بچانے کیلئے دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا کرنے لگے 2 یعنی اب بھی جھوٹ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں واپس ہو کر پکے ایماندار بن جائیں گے اور ہرگز آیات اللہ کی تکذیب نہ کریں گے یہ اشقیاء اگر دنیا میں واپس کردیئے جائیں تو بدی اور شرارت کی جو قوتیں ان میں رکھی ہیں پھر انھی کو کام میں لائیں گے اور جس مصیبت سے گھبرا کر جانے کی تمنا کر رہے ہیں اسے خواب و خیال کی طرح فراموش کردیں گے جیسا کہ بسا اوقات دنیاوی مصائب و مہالک میں پھنس کر آدمی انابت و توبہ اختیار کرلیتا ہے پھر جہاں چند روز گزرے کچھ بھی یاد نہیں رکھتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کئے تھے۔ (كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ) 10 ۔ یونس :12)
Top