Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور ہوگئے بہت سے فرقے تجھ کو ان سے کچھ سروکار نہیں ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہی جتلائے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے3
3 پچھلے رکوع میں ( قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ) 6 ۔ الانعام :151) سے بہت سے احکام بیان فرما کر ارشاد ہوا تھا ( وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ) 6 ۔ الانعام :153) یعنی صراط مستقیم (دین کی سیدھی راہ) ہمیشہ سے ایک رہی ہے۔ اس سے ہٹ کر گمراہی کے راستے بہت ہیں۔ تمام انبیاء ومرسلین اصولی حیثیت سے اسی ایک راہ پر چلے اور لوگوں کو بلاتے رہے (شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ) 42 ۔ الشوری :13) اول دین میں ان کے باہم کوئی تفریق نہیں۔ زمان و مکان اور خارجی احوال کے اختلاف سے فروع شرعیہ میں جو تفاوت ہوا، وہ تفرق نہیں بلکہ ہر وقت کے مناسب رنگ میں ایک ہی مشترک مقصد کے ذرائع حصول کا تنوع ہے جو دین انبیائے سابقین لے کر آئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی اس کی مخالفت کے لئے نہیں بلکہ اس کی تکمیل و تفصیل کی غرض سے اتاری گئی۔ سب کے آخر میں قرآن آیا جو تمام کتب سابقہ کی تتمیم و تصدیق اور ان کے علوم و معارف کی حفاظت کرنے والا ہے۔ درمیان میں ان کتب و شرائع سے اعراض کرنے والوں کا حال بیان کرکے (اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ ) 6 ۔ الانعام :159) سے پھر اصل مطلب کی طرف عود کیا گیا۔ یعنی دین الہٰی کا راستہ (صراط مستقیم) ایک ہے۔ جو لوگ اصل دین میں پھوٹ ڈال کر جدا جدا راہیں نکالتے اور فرقہ بندی کی لعنت میں گرفتار ہوتے ہیں خواہ وہ یہود ہوں یا نصاریٰ یا وہ مدعیان اسلام جو مستقبل میں عقائد دینیہ کی چادر کو پھاڑ کر پارہ پارہ کرنے والے تھے، ان لوگوں سے آپ کو کچھ واسطہ اور سروکار نہیں۔ یہ سب ( فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه) 6 ۔ الانعام :153) میں داخل ہیں۔ آپ ان سے بیزاری اور برأت کا اظہار کر کے خدا کے اسی ایک راستہ (صراط مستقیم) پر جمے رہیے اور ان کا انجام اللہ کے حوالہ کیجئے۔ وہ ان کو دنیا اور آخرت میں جتلا دے گا جو کچھ دین میں گڑ بڑی کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب فرقوا دینھم کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں " جو باتیں یقین لانے کی ہیں (اصول دین) ان میں فرق نہ چاہیے اور جو کرنے کی ہیں (فروع دین) ان کے طریقے کئی ہوں تو برا نہیں۔
Top