Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 149
قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ١ۚ فَلَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ
قُلْ : فرمادیں فَلِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے الْحُجَّةُ : حجت الْبَالِغَةُ : پوری فَلَوْ شَآءَ : پس اگر وہ چاہتا لَهَدٰىكُمْ : تو تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب کو
تو کہہ دے بس اللہ کا الزام پورا ہے سو اگر وہ چاہتا تو ہدایت کردیتا4
4 گذشتہ رکوع میں مشرکین سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ جن حلال و طیب چیزوں کو تم نے حرام ٹھہرا لیا ہے اور اس تحریم کو خدا کی طرف نسبت کرتے ہو، اس کی سند اور دلیل لاؤ۔ یہاں ان کی دلیل بیان کی گئی ہے جو وہ پیش کرنے والے تھے یعنی اگر اللہ چاہتا تو اس کو قدرت تھی کہ ہم کو اور ہمارے اسلاف کو اس تحریم سے بلکہ تمام مشرکانہ افعال و اقوال سے روک دیتا۔ جب نہ روکا اور یوں ہی ہوتا چلا آیا تو ثابت ہوا کہ اس کے نزدیک ہماری یہ کارروائیاں پسندیدہ ہیں۔ ناپسند ہوتیں تو ان کے کرنے میں ہم کو اب تک کیوں آزاد چھوڑتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک نیک نام اور مدبرّ گورنمنٹ کسی باغیانہ تحریک میں حصہ لینے والے کو باوجود یقینی اطلاع اور کافی قدرت کے پہلے ہی دن پکڑ کر پھانسی نہیں دے دیتی۔ وہ اس کی حرکات کی نگرانی رکھتی ہے، کبھی رویہ درست رکھنے کی ہدایت کرتی ہے اور موقع دیتی ہے کہ آدمی ایسی حرکات کا انجام سوچ کر خود سنبھل جائے، کبھی اصلاح سے مایوس ہو کر ڈھیل چھوڑتی ہے کہ اس کی بغاوت کا ایسا باضابطہ اور مکمل مواد فراہم ہوجائے جس کے بعد اس کی انتہائی مجرمانہ غداری قانونی حیثیت سے علیٰ رؤس الاشہاد ثابت کی جاسکے۔ ان تمام صورتوں میں مجرم کی باگ ڈھیلی چھوڑ دینے اور فوراً سزا نہ دینے سے کیا ثابت ہوگا کہ گورنمنٹ کی نظر میں وہ کارروائی جرم و بغاوت نہیں ہے۔ گورنمنٹ کی نگاہ میں ان افعال کا جرم ہونا مہلت پوری ہونے پر عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور باضابطہ اثبات و اظہار جرم کے بعد پھانسی یا حبس دوام کی سزا بھگتے گا، تب برأی العین مشاہدہ ہوجائے گا کہ گورنمنٹ کی نظر میں یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ بہرحال گورنمنٹ کا کسی جرم پر باوجود علم وقدرت رکھنے کے کسی مصلحت سے فوری سزا جاری نہ کرنا اس کی دلیل نہیں کہ وہ جرم کو جرم نہیں سمجھتی۔ اسی پر قیاس کرلیجئے کہ وہ احکم الحاکمین ابتدائے آفرینش سے آج تک بتوسط اپنے صادق القول اور پاکباز نائبین کے ہر قسم کے قوانین و احکام سے بندوں کو مطلع فرماتا رہا اور کھول کھول کر بتلا دیا کہ کونسی بات اس کے یہاں پسندیدہ اور کون سی ناپسند ہے کبھی پے درپے اور کبھی تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد ان احکام و ہدایات کی یاد دہانی بھی ہوتی رہی۔ اس دوران میں خلاف ورزی کرنے والوں سے مسامحت کی حد تک مسامحت کی گئی۔ معمولی تنبیہات کی ضرورت ہوئی تو وقتاً فوقتاً انہیں بھی کام میں لایا گیا۔ اور جن کی شقاوت کا پیمانہ لبریز ہونے والا تھا انہیں ڈھیل دی گئی کہ وہ صاف اور اعلانیہ طور پر اپنے کو خدا کی انتہائی سزا کا مستحق ٹھہرا کر کیفر کردار کو پہنچیں۔ چناچہ بہت سی قومیں اپنے جرائم کی پاداش کا دنیا میں تھوڑا تھوڑا مزا چکھ چکی ہیں۔ پھر ان حالات کی موجودگی میں کسی قوم کے چند روز جرائم میں مبتلا رہنے اور فوراً نہ پکڑے جانے سے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ وہ جرائم (معاذاللہ) خدا کے نزدیک پسندیدہ ہیں ورنہ خدا انہیں ایک گھنٹہ کی بھی مہلت نہ دیتا۔ رہا یہ سوال کہ خدا نے انسان کی ساخت ہی ابتداء سے ایسی کیوں نہ بنادی کہ وہ برائی کی طرف قطعاً نہ جاسکتا اور اس طرح فطرۃً اسے ایسی کیوں نہ بنادی کہ وہ برائی کی طرف قطعاً نہ جاسکتا اور اس طرح فطرۃً اسے مجبور کردیا جاتا کہ نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی چیز اختیار نہ کرسکے۔ اگر غور کیا جائے تو اس سوال کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایسا کیوں نہ پیدا کردیا گیا کہ وہ انسان ہی نہ رہتا۔ یا تو اینٹ پتھر بن جاتا جو ادراک و شعور اور کسب و اختیار سے یکسرخالی ہو یا گدھے گھوڑے وغیرہ جانوروں کی طرح جزئی احساس و ارادہ رکھنے والا حیوان ہوتا جو ازل سے ابد تک اپنے مخصوص و متشابہ افعال و احوال کے محدود دائرہ میں چکر لگاتا رہے اور یا بہت عزت دی جاتی تو فرشتوں کی صفوں میں بٹھلا دیا جاتا جو محض طاعت و عبادت کے اختیار کرنے پر مجبول و مفطور ہیں۔ الحاصل یہ کلی ادراکات اور عظیم الشان کسبی تصرفات رکھنے والی ترقی کن نوع ہی صفحہ ہستی پر نہ لائی جاتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی انسان اپنے شرف و کرامت کا بلند بانگ دعویٰ رکھتے ہوئے ایسی جرأت نہ کرے گا کہ سرے سے اپنی نوع کے وجود ہی کا مخالف ہوجائے۔ پھر اگر نوع انسانی کا مع اس کی عقلی و عملی قوتوں اور کسب و اختیار کی موجودہ آزادی کے پیدا کرنا نظام عالم کی تکمیل کے لئے ضروری تھا تو اس نظام تکوینی کے آثار و نتائج کا قبول کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مادی اور معاشی زندگی کے شعبوں میں تو انسانوں کی عقلی و کسبی آزادی کی بدولت بیشمار انواع و اقسام کے مختلف مظاہر سامنے آئیں۔ لیکن معادی و روحانی میدانوں میں وہ ہی دل و دماغ اور کسب و اختیار کی قوتیں رکھنے والے انسان سب کے سب ایک ہی پگڈنڈی پر چلنے کے لئے مجبور ہوجائیں اور کوئی ایک قدم ادھر ادھر ہٹانے کی قدرت نہ رکھے۔ پس اگر نوع انسان کا بحقیقۃ الموجودہ مجموعہ عالم میں پایا جانا ضروری ہے تو نیک و بد کا اختلاف بھی لا بدی ہوگا اور یہ ہی اختلاف کا وجود بڑی دلیل اس کی ہے کہ ہر وہ فعل جو وقوع میں آئے ضروری نہیں کہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہو ورنہ مختلف و متضاد افعال کی موجودگی میں ماننا پڑے گا کہ مثلاً خوش اخلاقی بھی خدا کو پسند ہو اور بد اخلاقی بھی، ایمان لانا بھی پسند ہو اور نہ لانا بھی، جو صریحاً باطل ہے۔ بیشک خدا اگر چاہتا تو انسان کی ساخت ایسی بنا سکتا تھا کہ سب ایک ہی راستہ پر چلنے کے لیے مجبور ہوجاتے، لیکن جب ایسا واقعہ نہیں ہوا تو یہ ہی حجت بالغہ اور پورا الزام ان لوگوں پر ہے جو لَوْشَاء اللّٰہُ مَا اَشْرَکْنَا کہہ کر مشیت و رضائے الٰہی میں تلازم ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس قدر شدید اختلافات کی موجودگی میں ان کے اصول کے موافق کہنا پڑے گا کہ مثلاً توحید خالص بھی اللہ کے نزدیک صحیح اور مرضی ہو اور اس کی نقیض شرک جلی بھی، وقس علیٰ ہذا۔ ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مشرکین کا یہ استدلال لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا الخ محض لغو اور پادر ہوا ہے، کوئی علمی اصول ان کے پاس نہیں جسے عقلمندوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ محض اٹکل کے تیر اور تخمینی باتیں ہیں جن کو خدا کی حجت بالغہ بکلّی رد کرتی ہے۔ جس کی طرف (فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ) 6 ۔ الانعام :149) میں اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت ایسی نہیں بنائی گئی کہ سب کے سب راہ ہدایت پر چل پڑیں۔ اس کو کسب و اختیار کی وہ آزادی حق جل و علا نے عطا فرمائی ہے جس کا عطا کیا جانا کسی مخلوق کے لئے ممکن تھا۔ اس لئے لازم ہے کہ اس آزادی کے استعمال کے وقت راہیں مختلف ہوجائیں کوئی نیکی کو اختیار کرلے کوئی بدی کو، کوئی حق تعالیٰ کی رضاء و رحمت کا مظہر بن جائے کوئی غضب کا۔ اس طرح وہ آخری مقصد جو خالق کائنات نے آفرینش عالم سے ارادہ کیا ہے یعنی اپنی صفات جمال و جلال کا اظہار علی الوجہ الاتم پورا ہو۔ ( لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) 76 ۔ الملک :2) اور نہ اگر تمام عالم ایک ہی حال پر فرض کرلیا جائے تو بعض صفات الہٰیہ کا ظہور ممکن ہوگا، اور دوسری بعض کے ظہور کے لئے کوئی محل نہ ملے گا۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہم نے کہا وہ اس تقدیر پر تھا کہ مشرکین کے قول لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا سے یہ غرض ہو کہ وہ اپنے خرافات و کفریات کا استحسان ثابت کرنا چاہتے تھے جیسا کہ ان کے احوال سے ظاہر ہے اور اگر کلام مذکور سے ان کی غرض صرف معذرت ہو کہ جو کچھ خدا چاہتا ہے وہ ہم سے کراتا ہے، اچھا ہو یا برا، بہرحال اس کی مشیت سے ہے۔ پھر مشیت الہٰی کے مقابلہ میں انبیاء ورسل ہم سے کیوں مزاحمت کرتے ہیں اور عذاب الہٰی کا ڈراوا کیوں سناتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس خدا کی مشیت سے تم ان افعال شنیعہ کا کسب کرتے ہو، اسی کی مشیت سے انبیاء ورسل تمہاری مزاحمت کرتے ہیں اور وہ ہی مشیت تمہارے کسب پر مناسب عذاب بھیجتی ہے۔ جس طرح قدرت نے سانپ کو پیدا کیا اور وہ ہی مار گزیدہ کے حق میں ہلاکت کا اثر مرتب کرتی ہے خواہ سانپ کے کاٹنے میں مارگزیدہ کے فعل و اختیار کو کچھ دخل ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح تمہارے شرک و کفر میں ہلاکت دائمی کی، اور ایمان و عمل صالح میں نجات ابدی کی تاثیرات رکھ دینا بھی اسی قدرت و مشیت ایزدی کا کام ہے جس سے تمام سلسلہ اسباب و مسببات کی تخلیق ہوئی ہے۔ پس اگر تم اپنے مشرکانہ اطوار سے باز نہ آنے میں مشیت کے عموم سے احتجاج کرسکتے ہو تو ارسال رسل اور انزال عذاب وغیرہ امور کو بھی اسی مشیت کی کارفرمائی کا نتیجہ سمجھ کر خدا کی حجت بالغہ کو تمام سمجھو۔ بیشک خدا چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا لیکن اس نے تمہاری سوء استعداد کی وجہ سے ایسا نہیں چاہا۔ آخر تمہارے سوء اختیار سے جو افعال صادر ہوئے ان کا طبعی اثر عذاب کی صورت میں مرتب ہو کر رہا۔ والعیاذ باللہ۔
Top