Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اگر تو کہنا مانے گا اکثر لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو تجھ کو بہکا دیں گے اللہ کی راہ سے وہ سب تو چلتے ہیں اپنے خیال پر اور سب اٹکل ہی دوڑاتے ہیں1
1 مشاہدہ اور تاریخ بتلاتے ہیں کہ دنیا میں ہمیشہ فہیم، محقق اور با اصول آدمی تھوڑے رہے ہیں۔ اکثریت ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو محض خیالی، بےاصول اور اٹکل پچو باتوں کی پیروی کرنے والے ہوں۔ اگر تم اسی اکثریت کا کہنا ماننے لگو اور بےاصول باتوں پر چلنا شروع کردو تو خدا کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ سے یقینا بہک جاؤ گے۔ یہ آپ پر رکھ کر دوسروں کو سنایا۔ جاہل عوام کی ان ہی بےاصول اور اٹکل پچو باتوں میں سے ایک وہ تھی جو انہوں نے ذبیحہ کے مسئلہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو جانور طبعی موت سے مرجائے (یعنی میتہ) اسے مسلمان حرام کہتے ہیں حالانکہ وہ خدا کا مارا ہوا ہے اور جو خود ان کے ہاتھ کا مارا ہوا ہو اسے حلال سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے، اس کا جواب اگلی آیتوں میں " فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ " سے دیا گیا۔ حضرت شاہ صاحب موضح القرآن میں فرماتے ہیں کہ " یہ کئی آیتیں اس پر اتریں کہ کافر کہنے لگے مسلمان اپنا مارا کھاتے ہیں اور اللہ کا مارا نہیں کھاتے، فرمایا کہ ایسی ملمع فریب کی باتیں انسانوں کو شبہ میں ڈالنے کے لئے شیطان سکھاتے ہیں۔ خوب سمجھ لو حلال و حرام وغیرہ میں حکم اللہ کا چلتا ہے۔ محض عقلی ڈھکوسلوں کا اعتبار نہیں۔ آگے کھول کر سمجھا دیا کہ مارنے والا سب کا اللہ ہے لیکن اس کے نام کو برکت ہے جو اس کے نام پر ذبح ہوا سو حلال ہے جو بغیر اس کے مرگیا سو مردار "۔ بتغیر یسیر۔
Top