Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور ٹھہراتے ہیں اللہ کے شریک جنوں کو حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے6  اور تراشتے ہیں اس کے واسطے بیٹے اور بیٹیاں جہالت سے7 وہ پاک ہے اور بہت دور ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں8
6  یا تو " جن " سے مراد یہاں " شیاطین " ہیں چونکہ کفر و شرک کا ارتکاب شیطان کے اغوا سے ہوتا ہے اس لئے اس کے اغواؤ اضلال سے غیر اللہ کی عبادت کرنا گویا اسی کی عبادت ہوئی۔ ابراہیم نے بت پرستی کا رد کرتے ہوئے فرمایا یا ابت " لاَ تَعْبُدُ الشَّیْطٰن " دوسری جگہ ارشاد ہے (اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ) 36 ۔ یس :60) " ملائکہ قیامت میں فرمائیں گے (سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ) 34 ۔ سبأ :31) " اور یا " جن " سے مراد قوم جن لی جائے جن کے بعض سرداروں سے اہل جاہلیت استعانت و تعوذ کیا کرتے تھے (وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا) 72 ۔ جن :6) بہرحال وہ خود ہماری طرح خدا کی عاجز مخلوق ہے۔ پھر مخلوق ہو کر خالق کا شریک کیسے ہوسکتا ہے۔ 7 نصاریٰ حضرت مسیح کو بعض یہود حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا اور مشرکین ملائکہ اللہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ 8 یعنی پاک ہے شرکت سے اسکی شان بہت بلند ہے ترکیب و تحلیل سے پھر باپ بیٹے کا تصور وہاں کیسے ہوسکتا ہے۔
Top