Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو3 کہہ دے روح ہے میرے رب کے حکم سے اور تم کو علم دیا ہے تھوڑا سا4، 5، 6
3 یعنی روح انسانی کیا چیز ہے ؟ اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے ؟ یہ سوال صحیحین کی روایت کے موافق یہود مدینہ نے آنحضرت ﷺ کے آزمانے کو کیا تھا۔ اور سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں قریش نے یہود کے مشورہ سے یہ سوال کیا۔ اسی لیے آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے، ممکن ہے نزول مکرر ہوا ہو واللہ اعلم۔ یہاں اس سوال کے درج کرنے سے غالباً یہ مقصود ہوگا کہ جن چیزوں کے سمجھنے کی ان لوگوں کو ضرورت ہے ادھر سے تو اعراض کرتے ہیں اور غیر ضروری مسائل میں از راہ تعنت وعناد جھگڑتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ وحی قرآنی کی روح سے باطنی زندگی حاصل کرتے اور اس نسخہ شفا سے فائدہ اٹھاتے (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا) 42 ۔ الشوری :52) (يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ) 16 ۔ النحل :2) مگر انھیں دور از کار اور معاندانہ بحثوں سے فرصت کہاں۔ " روح " کیا ہے ؟ جوہر ہے یا عرض ؟ مادی ہے یا مجرد ؟ بسیط ہے یا مرکب ؟ اس قسم کے غامض اور بےضرورت مسائل کے سمجھنے پر نہ نجات موقوف ہے نہ یہ بحثیں انبیاء کے فرائض تبلیغ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے حکماء اور فلاسفہ آج تک خود " مادہ " کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکے " روح " جو بہرحال " مادہ " سے کہیں زیادہ لطیف و خفی ہے اس کی اصل ماہیت وکنہ تک پہنچے کی پھر کیا امید کی جاسکتی ہے۔ مشرکین مکہ کی جہالات اور یہود مدینہ کی اسرائیلیات کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جو قوم موٹی موٹی باتوں اور نہایت واضح حقائق کو نہیں سمجھ سکتی، وہ روح کی حقائق پر دسترس پانے کی کیا خاک استعداد و اہلیت رکھتی ہوگی ؟ توکار زمین را نکو ساختی کہ باآسماں نیز پرداختی 4 موضح القرآن میں ہے کہ " حضرت کے آزمانے کو یہود نے پوچھا، سو اللہ نے (کھول کر) نہ بتایا کیونکہ ان کو سمجھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ آگے پیغمبروں نے بھی مخلوق سے ایسی باتیں نہیں کیں۔ اتنا جاننا کافی ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آپڑی، وہ جی اٹھا، جب نکل گئی مرگیا " (تنبیہ) حق تعالیٰ کا کلام اپنے اندر عجیب و غریب اعجاز رکھتا ہے۔ روح کے متعلق یہاں پر جو کچھ فرمایا اس کا سطحی مضمون عوام اور قاصر الفہم یا کجرو معاندین کے لیے کافی ہے۔ لیکن اسی سطح کے نیچے، ان ہی مختصر الفاظ کی تہ میں روح کے متعلق وہ بصیرت افروز حقائق مستور ہیں جو بڑے سے بڑے عالی دماغ نکتہ بیں فلسفی اور ایک عارف کامل کی راہ طلب و تحقیق میں چراغ ہدایت کا کام دیتے ہیں روح کے متعلق عہد قدیم سے جو سلسلہ تحقیقات کا جاری ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا، اور نہ شاید ہو سکے۔ روح کی اصلی کنہ و حقیقت تک پہنچنے کا دعویٰ تو بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ ابھی تک کتنی ہی محسوسات ہیں جن کی کنہ و حقیقت معلوم کرنے سے ہم عاجز رہے ہیں تاہم میرے نزدیک آیت قرآنیہ سے روح کے متعلق ان چند نظریات پر صاف روشنی پڑتی ہے۔ (1) انسان میں اس مادی جسم کے علاوہ کوئی اور چیز موجود ہے جسے " روح " کہتے ہیں، وہ " عالم امر " کی چیز ہے اور خدا کے حکم و ارادہ سے فائض ہوتی ہے۔ ( قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ ) 17 ۔ الاسراء :85) ۔ (ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران :59) (ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ) 23 ۔ المؤمنون :14) (اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 16 ۔ النحل :40) روح کی صفات علم و شعور وغیرہ بتدریج کمال کو پہنچتی ہیں اور ارواح میں حصول کمال کے اعتبار سے بیحد تفاوت و فرق مراتب ہے۔ حتی کہ خدا تعالیٰ کی تربیت سے ایک روح ایسے بلند اور اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں دوسری ارواح کی قطعا رسائی نہ ہو سکے، جیسے روح محمدی پہنچی۔ یشِیر الیہ اضافۃ الامر الی الرب والرب الی یاء المتکلم المراد بہ ہہنا محمد وقولہ، تعالیٰ فیما بعد (قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ ) 17 ۔ الاسراء :88) (3) مگر اس کے یہ کمالات ذاتی نہیں۔ وہاب حقیقی کے عطا کیے ہوئے ہیں اور محدود ہیں۔ یدل علیہ قولہ ' تعالیٰ (وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا) 17 ۔ الاسراء :85) فان العلم قداتاہ من مفیض آخر و ہو قلیل فی جنب علم اللہ تعالیٰ کما قال تعالیٰ (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ ) 18 ۔ الکہف :109) (وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ) 31 ۔ لقمان :27) ویدل علیٰ تحدید القدرۃ قولہ ' تعالیٰ فیما بعد ردا لقولہم (حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا) 17 ۔ الاسراء :90) (قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17 ۔ الاسراء :93) روح انسانی خواہ علم وقدرت وغیرہ صفات میں کتنی ہی ترقی کر جائے حتی کہ اپنے تمام ہم جنسوں سے سبقت لے جائے، پھر بھی اس کی صفات محدود رہتی ہیں، صفات باری کی طرح لامحدود نہیں ہوجاتیں اور یہ ہی بڑی دلیل اس کی ہے کہ آریوں کے عقیدہ کے موافق روح خدا سے علیحدہ کوئی قدیم وغیر مخلوق ہستی نہیں ہوسکتی ورنہ تحدید کہاں سے آئی۔ (4) کتنی ہی بڑی کامل روح ہو، حق تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جس وقت چاہے اس سے کمالات سلب کرلے۔ گو اس کے فضل و رحمت سے کبھی ایسا کرنے کی نوبت نہ آئے۔ یدل علیہ قولہ تعالیٰ (وَلَىِٕنْ شِـئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَيْنَا وَكِيْلًا 86؀ۙ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ ۭ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا 87؀) 17 ۔ الاسراء :87-86) یہ چند اصول جو ہم نے بیان کیے اہل فہم کو نسق آیات میں ادنیٰ تأمل کرنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ صرف ایک " عالم امر " کا لفظ ہے جس کی مناسب تشریح ضروری ہے اور جس کے سمجھنے سے امید ہے روح کی معرفت حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ لفظ " امر " قرآن کریم میں بیسیوں جگہ آیا اور اس کے معنی کی تعیین میں علماء نے کافی کلام کیا ہے لیکن میری غرض اس وقت سورة " اعراف " کی آیت (ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ) 7 ۔ الاعراف :54) کی طرف توجہ دلانا ہے جہاں " امر " کو " خلق " کے مقابل رکھا ہے جس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خدا کے یہاں دونوں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں ایک " خلق " دوسرا " امر " دونوں میں کیا فرق ہے ؟ اس کو ہم سیاق آیات سے بسہولت سمجھ سکتے ہیں۔ پہلے فرمایا۔ (اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ) 7 ۔ الاعراف :54) یہ تو " خلق " ہوا۔ درمیان میں " استواء علی العرش " کا ذکر کر کے جو شان حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے فرمایا۔ (يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ) 7 ۔ الاعراف :54) یعنی ان مخلوقات کو ایک معین و محکم نظام پر چلاتے رہنا جسے تدبیر و تصریف کہہ سکتے ہیں۔ یہ " امر " ہوا۔ (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 65 ۔ الطلاق :12) گویا دنیا کی مثال ایک بڑے کارخانہ کی سمجھو جس میں مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوں۔ کوئی کپڑا بن رہی ہے کوئی آٹا پیس رہی ہے کوئی کتاب چھاپتی ہے کوئی شہر میں روشنی پہنچا رہی ہے۔ کسی سے پنکھے چل رہے ہیں وغیر ذالک۔ ہر ایک مشین میں بہت سے کل پرزے ہیں جو مشین کی غرض وغایت کا لحاظ کر کے ایک معین اندازے سے ڈھالے جاتے اور لگائے جاتے ہیں۔ پھر سب پرزے جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جاتا ہے۔ جب تمام مشینیں فٹ ہو کر کھڑی ہوجاتی ہیں، تب الیکٹرک (بجلی) کے خزانہ سے ہر مشین کی طرف جدا جدا راستہ سے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آن واحد میں ساکن و خاموش مشینیں اپنی اپنی ساخت کے موافق گھومنے اور کام کرنے لگ جاتی ہیں۔ بجلی ہر مشین اور ہر پرزہ کو اس کی مخصوص ساخت اور غرض کے مطابق گھماتی ہے۔ حتی کہ جو قلیل و کثیر کہربائیہ روشنی کے لیمپوں اور قمقموں میں پہنچتی ہے، وہاں پہنچ کر ان ہی قمقموں کی ہیئات اور رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ اس مثال میں یہ بات واضح ہوگئی کہ مشین کا ڈھانچہ تیار کرنا، اس کے کل پرزوں کا ٹھیک اندازہ پر رکھنا، پھر فٹ کرنا، ایک سلسلہ کے کام ہیں۔ جس کی تکمیل کے بعد مشین کو چالو کرنے کے لیے ایک دوسری چیز (بجلی یا اسٹیم) اس کے خزانے سے لانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سمجھ لو حق تعالیٰ نے اول آسمان و زمین کی تمام مشینیں بنائیں جس کو " خلق " کہتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا پرزہ ٹھیک اندازہ کے موافق تیار کیا جسے " تقدیر " کہا گیا۔ " قدرہ تقدیرًا " سب کل پرزوں کو جوڑ کر مشین کو فٹ کیا جسے " تصویر " کہتے ہیں۔ " خلقناکم ثم صورنا کم " (اعراف، رکوع 2) یہ سب افعال خلق کی مد میں تھے۔ اب ضرورت تھی کہ جس مشین کو جس کام میں لگانا ہے لگا دیا جائے۔ آخر مشین کو چالو کرنے کے لیے " امر الٰہی " کی بجلی چھوڑ دی گئی۔ شاید اس کا تعلق اسم " باری " سے ہے۔ (الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ) 59 ۔ الحشر :24) وفی الحدیث " فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَاَ النَّسَمَۃَ " وفی سورة الحدید " مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاہَا " ای النفوس کماہو مروی عن ابن عباس و قتادۃ والحسن۔ غرض ادھر سے حکم ہوا " چل " فوراً چلنے لگی۔ اسی " امر الٰہی " کو فرمایا (اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 36 ۔ یس :82) دوسری جگہ نہایت وضاحت کے ساتھ امر " کن " کو خلق جسد پر مرتب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ) 3 ۔ آل عمران :59) بلکہ تتبع سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں " کُنْ فَیَکُوْنُ " کا مضمون جتنے مواضع میں آیا عموماً خلق و ابداع کے ذکر کے بعد آیا ہے۔ جس سے خیال گزرتا ہے کہ کلمہ " کُن " کا خطاب " خلق " کے بعد تدبیر و تصریف وغیرہ کے لیے ہوتا ہوگا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں " امر " کے معنی " حکم " کے ہیں اور وہ حکم یہ ہی ہے جسے لفظ " کن " سے تعبیر کیا گیا۔ اور " کن " جنس کلام سے ہے جو حق تعالیٰ کی صفت قدیمہ ہے۔ جس طرح ہم اس کی تمامی صفات (مثلاً حیات، سمع، بصر وغیرہ) کو بلا کیف تسلیم کرتے ہیں، کلام اللہ وکلمۃ اللہ کے متعلق بھی یہ ہی مسلک رکھنا چاہیے۔ خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ " روح " کے ساتھ اکثر جگہ قرآن میں امر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً " قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی۔ (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا) 42 ۔ الشوری :52) ۔ (يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِه) 40 ۔ غافر :15) ۔ (يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ) 16 ۔ النحل :2) ۔ " اور پہلے گزر چکا کہ " امر " عبارت ہے کلمہ " کن " سے یعنی وہ کلام انشائی جس سے مخلوقات کی تدبیر و تصریف اس طریقہ پر کی جائے جس پر غرض ایجاد وتکوین مرتب ہو۔ لہذا ثابت ہوا کہ " روح " کا مبدأ حق تعالیٰ کی صفت کلام ہے جو صفت علم کے ماتحت ہے۔ شاید اسی لیے (وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ ) 15 ۔ الحجر :29) میں اسے اپنی طرف منسوب کیا " کلام " اور " امر " کی نسبت متکلم اور آمر سے " صادر " و " مصدور " کی ہوتی ہے۔ " مخلوق " و " خالق " کی نہیں ہوتی۔ اسی لیے (ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ) 7 ۔ الاعراف :54) میں " امر " کو " خلق " کے مقابل رکھا۔ ہاں یہ امر " کن " باری تعالیٰ شانہ سے صادر ہو کر ممکن ہے جو ہر مجرد کے لباس میں یا ایک " ملک اکبر " اور " روح اعظم " کی صورت میں ظہور پکڑے۔ جس کا ذکر بعض آثار میں ہوا ہے اور جسے ہم " کہربائیہ روحیہ " کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔ گویا یہیں سے روح حیات کی لہریں دنیا کی ذوی الارواح پر تقسیم کی جاتی ہیں اور اَلْاَرْوَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَۃٌ الخ کے بیشمار تاروں کا یہیں کنکشن ہوتا ہے۔ اب جو کرنٹ چھوٹی بڑی بیشمار مشینوں کی طرف چھوڑا جاتا ہے وہ مشین سے اس کی بناوٹ اور استعداد کے موافق کام لیتا اور اس کی ساخت کے مناسب حرکت دیتا ہے بلکہ جن لیمپوں اور قمقموں میں یہ بجلی پہنچتی ہے ان ہی کے مناسب رنگ و ہیئت اختیار کرلیتی ہے۔ رہی یہ بات کہ " کن " کا حکم جو قسم کلام سے ہے، جو ہر مجرد یا جسم نورانی لطیف کی شکل کیونکر اختیار کرسکتا ہے۔ اسے یوں سمجھ لو کہ تمام عقلاء اس پر متفق ہیں کہ ہم خواب میں جو اشکال و صور دیکھتے ہیں، بعض اوقات وہ محض ہمارے خیالات ہوتے ہیں جو دریا، پہاڑ، شیر، بھیڑیے وغیرہ کی شکلوں میں نظر آتے ہیں۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ خیالات جو اعراض ہیں اور دماغ کے ساتھ قائم ہیں وہ جواہر و اجسام کیونکر بن گئے اور کس طرح ان میں اجسام کے لوازم و خواص پیدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ خواب دیکھنے والے سے بیدار ہونے کے بعد بھی ان کے آثار جدا نہیں ہوتے۔ فی الحقیقت خدا تعالیٰ نے ہر انسان کو خواب کے ذریعہ سے بڑی بھاری ہدایت کی ہے کہ جب ایک آدمی کی قوت مصورہ میں اس نے اس قدر طاقت رکھی ہے کہ وہ اپنی بساط کے موافق غیر مجسم خیالات کو جسمی سانچہ میں ڈھال لے اور ان میں وہ ہی خواص و آثار باذن اللہ پیدا کرے جو عالم بیداری میں اجسام سے وابستہ تھے۔ پھر تماشہ یہ ہے کہ وہ خیالات خواب دیکھنے والے کے دماغ سے ایک منٹ کو علیحدہ بھی نہیں ہوئے۔ ان کا ذہنی وجود بدستور قائم ہے تو کیا اس حقیر سے نمونہ کو دیکھ کر ہم اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ ممکن ہے قادر مطلق اور مصور برحق جل و علا کا امر بیکیف (کن) باوجود صفت قائمہ بذاتہ تعالیٰ ہونے کے کسی ایک یا متعدد صورتوں میں جلوہ گر ہوجائے۔ ان صورتوں کو ہم ارواح یا فرشتے یا کسی اور نام سے پکاریں۔ وہ ارواح و ملائکہ وغیرہ سب حادث ہوں اور " امر الٰہی " بحالہ قدیم رہے۔ امکان و حدوث کے آثار و احکام ارواح وغیرہ تک محدود رہیں اور " امرِ الٰہی " ان سے پاک و برتر ہو۔ جیسے جو صورت خیالیہ بحالت خواب آگ کی صورت میں نظر آتی ہے اس صورت ناریہ میں احراق، سوزش، گرمی وغیرہ سب آثار ہم محسوس کرتے ہیں حالانکہ اسی آگ کا تصور سالہا سال بھی دماغوں میں رہے تو ہمیں ایک سیکنڈ کے لیے یہ آثار محسوس نہیں ہوتے۔ پس کوئی شبہ نہیں کہ روح انسانی (خواہ جوہر مجرد ہو یا جسم لطیف نورانی) " امرربی " کا مظہر ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مظہر کے سب احکام و آثار ظاہر پر جاری ہوں کما ہوالظاہر۔ واضح رہے کہ جو کچھ ہم نے لکھا اور جو کچھ مثالیں پیش کیں ان سے مقصود محض تسہیل و تقریب الی الفہم ہے۔ ورنہ ایسی کوئی مثال دستیاب نہیں ہوسکتی جو ان حقائق غیبیہ پر پوری طرح منطبق ہو۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک بر فرق من و تمثیل من رہا یہ مسئلہ کہ روح جوہر مجرد ہے جیسا کہ اکثر حکمائے قدیم اور صوفیہ کا مذہب ہے یا جسم نورانی لطیف جیسا کہ جمہور اہل حدیث وغیرہ کی رائے ہے۔ اس میں میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے جو بقیۃ السلف بحرالعلوم علامہ سید انور شاہ صاحب اطال اللہ بقاء نے فرمایا کہ بالفاظ عارف جامی یہاں تین چیزیں ہیں (1) وہ جواہر جن میں مادہ اور کمیت دونوں ہوں جیسے ہمارے ابدان مادیہ (2) جواہر جن میں مادہ نہیں صرف کمیت ہے جنہیں صوفیہ اجسام مثالیہ کہتے ہیں (3) وہ جواہر جو مادہ اور کمیت دونوں سے خالی ہوں جن کو صوفیہ " ارواح " یا حکماء جواہر مجردہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ جمہور اہل شرع جس کو " روح " کہتے ہیں وہ صوفیہ کے نزدیک " بدن مثالی " سے موسوم ہے جو بدن مادی میں حلول کرتا ہے۔ اور بدن مادی کی طرح آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ اعضاء رکھتا ہے۔ یہ روح بدن مادی سے کبھی جدا ہوجاتی ہے اور اس جدائی کی حالت میں بھی ایک طرح کا مجہول الکیفیت علاقہ بدن کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے جس سے بدن پر حالت موت طاری ہونے نہیں پاتی۔ گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ' کے قول کے موافق جو بغوی نے (اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا) 39 ۔ الزمر :42) کی تفسیر میں نقل کیا، اس وقت روح خود علیحدہ رہتی ہے مگر اس کی شعاع جسد میں پہنچ کر بقائے حیات کا سبب بنتی ہے۔ جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے۔ یا جیسے آج ہی میں نے ایک اخبار میں ایک تار پڑھا کہ " حال ہی میں فرانس کے محکمہ پرواز نے ہوابازوں کے بغیر طیارے چلا کر خفیہ تجربے کیے ہیں اور تعجب انگیز نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ حال میں ایک خاص بم پھینکنے والا طیارہ بھیجا گیا تھا۔ جس میں کوئی شخص سوار نہ تھا۔ لیکن لاسلکی کے ذریعہ سے وہ منزل مقصود پر پہنچایا گیا۔ اس طیارہ میں بم بھر کر وہاں گرائے گئے اور پھر وہ مرکز میں واپس لایا گیا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لاسلکی کے ذریعہ سے ہوائی جہاز نے خود بخود جو کام کیا وہ ایسا مکمل ہے جیسا کسی ہواباز کی مدد سے عمل میں آتا۔ " آج کل یورپ میں جو سوسائٹیاں روح کی تحقیقات کر رہی ہیں انہوں نے بعض ایسے مشاہدات بیان کیے ہیں کہ ایک روح جسم سے علیحدہ تھی، اور روح کی ٹانگ پر حملہ کرنے کا اثر جسم مادی کی ٹانگ پر ظاہر ہوا۔ بہرحال اہل شرع جو روح ثابت کرتے ہیں صوفیہ کو اس کا انکار نہیں بلکہ وہ اس کے اوپر ایک اور روح مجرد مانتے ہیں جس میں کوئی استحالہ نہیں بلکہ اگر اس روح مجرد کی بھی کوئی اور روح ہو اور آخر میں کثرت کا سارا سلسلہ سمٹ کر " امر ربی " کی وحدت پر منتہی ہوجائے تو انکار کی ضرورت نہیں۔ شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ نے " منطق الطیر " میں کیا خوب فرمایا ہم زجملہ بیش وہم پیش ازہمہ جملہ ازخود دیدہ و خویش ازہمہ جاں نہاں در جسم و او در جاں نہاں اے نہاں اندر نہاں اے جان جاں مذکورہ بالا تقریر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر چیز میں جو " کن " کی مخاطب ہوئی، روح حیات پائی جائے۔ بیشک میں یہ ہی سمجھتا ہوں کہ ہر مخلوق کی ہر ایک نوع کو اس کی استعداد کے موافق قوی یا ضعیف زندگی ملی ہے یعنی جس کام کے لیے وہ چیز پیدا کی گئی، ڈھانچہ تیار کر کے اس کو حکم دینا " کن " (اس کام میں لگ جا) بس یہ ہی اس کی روح حیات ہے جب تک اور جس حد تک یہ اپنی غرض ایجاد کو پورا کرے گی اسی حد تک زندہ سمجھی جائے گی۔ اور جس قدر اس سے بعید ہو کر معطل ہوتی جائے گی اسی قدر موت سے نزدیک یا مردہ کہلائے گی۔ ہذا ماعندی وعندالناس ماعند ہم واللّٰہ سجانہ، وتعالیٰ ہو الملہم للصواب۔ 5 یعنی قرآن کا جو علم تم کو دیا ہے خدا چاہے تو ذرا سی دیر میں چھین لے پھر کوئی واپس نہ لاسکے۔ لیکن اس کی مہربانی آپ پر بہت بڑی ہے اسی لیے یہ نعمت عظمیٰ عنایت فرمائی، اور چھیننے کی کوئی وجہ نہیں۔ صرف قدرت عظیمہ کا اظہار مقصود ہے اور یہ کہ کیسی ہی کامل روح ہو اس کے سبب کمالات موہوب و مستعار ہیں ذاتی نہیں۔ 6  اعجاز قرآن کے متعلق پہلے متعدد مواضع میں کلام کیا جا چکا ہے
Top