Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھ کو سنبھالے رکھا تو تو لگ جاتا جھکنے ان کی طرف تھوڑا سا2
2 " تَرْکَنُ " رکون سے ہے جو ادنیٰ جھکاؤ، اور خفیف میلان قلب کو کہتے ہیں اس کے ساتھ " شَیْئًا قَلِیْلًا " بڑھایا گیا تو ادنیٰ سے ادنیٰ ترین مراد ہوگا۔ پھر " لَقَدْ کدتَّ " فرما کر اس کے وقوع کو اور بھی گھٹا دیا۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ آپ معصوم پیغمبر ہیں جن کی عصمت کی سنبھال حق تعالیٰ اپنے فضل خصوصی سے کرتا ہے تو ان چالاک شریروں کی فریب بازیوں سے بہت ہی تھوڑا سا ادھر جھکنے کے قریب ہوجاتے مگر انبیاء کی عصمت کا تکفل ان کا پروردگار کرچکا ہے۔ اس لیے اتنا خفیف جھکاؤ بھی نہ پایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ میں تقویٰ کی فطری قوت کس قدر مضبوط اور ناقابل تزلزل تھی۔
Top