Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 47
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَا : جس غرض سے يَسْتَمِعُوْنَ : وہ سنتے ہیں بِهٖٓ : اس کو اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ : جب وہ کان لگاتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَاِذْ : اور جب هُمْ : وہ نَجْوٰٓى : سرگوشی کرتے ہیں اِذْ يَقُوْلُ : جب کہتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : سحر زدہ
ہم خوب جانتے ہیں جس واسطے وہ سنتے ہیں8 جس وقت کان رکھتے ہیں تیری طرف اور جب وہ مشاورت کرتے ہیں جب کہ کہتے ہیں یہ بےانصاف جس کے کہے پر تم چلتے ہو وہ نہیں ہے مگر ایک مرد جادو کا مارا9
8 یعنی سننے سے استفادہ مقصود نہیں ہوتا محض استخفاف و استہزاء مقصود ہوتا ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ 9 یعنی قرآن اور آپ ﷺ کی باتیں سن کر گئے۔ پھر آپس میں مشورہ کیا کہ محمد ﷺ کی نسبت کیا کہنا چاہیے۔ آخر کہنے لگے کہ یہ شخص جادو کا مارا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ یعنی جادو کے اثر سے مجنون ہوگیا، دماغ ٹھکانے نہیں رہا (العیاذ باللہ العظیم) بعض نے " مسحور " کو یہاں " ساحر " کے معنی میں لیا ہے گویا اس کی باتوں میں جادو کا اثر ہے۔ (تنبیہ) لفظ " مسحور " سے جو مطلب وہ لیتے تھے اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کے سحر کا کسی درجہ میں عارضی طور پر بھی اثر نہ ہو سکے یہ آیت مکی ہے۔ مدینہ میں آپ پر یہود کے جادو کرانے کا واقعہ صحاح میں مذکور ہے۔ جس کا اثر چند روز تک صرف اتنا رہا کہ بعض دنیاوی کاموں میں کبھی کبھی ذہول ہوجاتا تھا۔
Top