Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
کہہ اگر ہوتے اس کے ساتھ اور حاکم جیسا یہ بتلاتے ہیں12 تو نکالتے صاحب عرش کی طرف راہ1
12 یعنی اصنام وغیرہ جنہیں خدائی کا شریک اور الوہیت کا حصہ دار بتلایا جاتا ہے۔ 1 یعنی پرایا محکوم رہنا کیوں پسند کرتے، سب مل کر خدا تعالیٰ کے تخت سلطنت کو الٹ ڈالتے۔ اگر کہا جائے کہ صاحب عرش کے مقابلہ میں ان کی کچھ چلتی نہیں تو ایک عاجز مخلوق کی عبادت کرنا پرلے درجہ کی حماقت ہے یا اگر وہ معبود خود رب العرش کو خوش رکھنا اور اس کا قرب حاصل کرنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے پوجنے والوں کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہوا کہ خدائے اکبر کو خوش رکھنے کی فکر کریں۔ لیکن خدائے بزرگ تمام انبیاء کی زبانی اور فطرت انسانی کی معرفت شرک سے اپنی کامل بیزاری کا اظہار فرما چکا۔ پھر تعجب ہے کہ یہ احمق کس راستہ پر اندھا دھند چلے جا رہے ہیں۔
Top