Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 12
وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اٰيَتَيْنِ : دو نشانیاں فَمَحَوْنَآ : پھر ہم نے مٹا دیا اٰيَةَ الَّيْلِ : رات کی نشانی وَجَعَلْنَآ : اور ہم نے بنایا اٰيَةَ النَّهَارِ : دن کی نشانی مُبْصِرَةً : دکھانے والی لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّكُمْ : اپنے رب سے (کا) وَلِتَعْلَمُوْا : اور تاکہ تم معلوم کرو عَدَدَ : گنتی السِّنِيْنَ : برس (جمع) وَالْحِسَابَ : اور حساب وَ : اور كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز فَصَّلْنٰهُ : ہم نے بیان کیا ہے تَفْصِيْلًا : تفصیل کے ساتھ
اور ہم نے بنائے رات اور دن دو نمونے6  پھر مٹا دیا رات کا نمونہ7 اور بنادیا دن کا نمونہ دیکھنے کو تاکہ تلاش کرو فضل اپنے رب کا8 اور تاکہ معلوم کرو گنتی برسوں کی اور حساب9 اور سب چیز سنائی ہم نے کھول کر1
6  رات کا اندھیرا، دن کا اجالا، دونوں میں سے کبھی اس کا کبھی اس کا چھوٹا بڑا ہونا، پھر رات میں چاند کی آہستہ آہستہ گھٹنے بڑھنے والی ٹھنڈی اور دھیمی چاندنی، دن میں آفتاب عالمتاب کی تیز اور گرم روشنی، یہ سب خداوند قدوس کی قدرت کاملہ کے نمونے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کا مستقل نظام علیحدہ ہے جس کے ساتھ سینکڑوں فوائد اور مصالح وابستہ ہیں۔ اور سب کا مجموعی نظام الگ ہے جو شروع سے اب تک نہایت مضبوط و محکم قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ 7 رات کا نمونہ تاریک اور مٹا ہوا ہے، چاند کی روشنی سورج کے اعتبار سے دھیمی اور دھندلی ہوتی ہے بلکہ خود جرم قمر بھی دیکھنے والے کو داغ دار نظر آتا ہے۔ 8 یعنی دن کے وقت سورج کی روشنی میں ہر چیز صاف دکھائی دیتی ہے لوگ تازہ دم ہو کر روزی کی تلاش میں نکلتے اور مختلف قسم کے کاروبار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ الغرض شب میں جن چیزوں پر تاریکی کی چادر پڑی ہوئی تھی۔ سورج کی شعاعیں سب کو بےحجاب کردیتی ہیں۔ اور جو لوگ خواب گراں سے مدہوش تھے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر گشت لگانے لگتے ہیں۔ 9 یعنی لیل و نہار کی آمد و شد اور شمس و قمر کے طلوع و غروب سے مہینوں اور سالوں کی گنتی اور بہت طرح کے چھوٹے بڑے حساب متعلق ہیں۔ 1 تم سمجھ لو کہ گھبرانے اور جلدی مچانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ خدا کے یہاں ہر چیز کا خیر ہو یا شر ایک وقت اور انداز مقرر ہے۔ جیسے رات اور دن۔ کسی کی جلد بازی اور شتاب کاری سے رات کم نہیں ہوجاتی یا دن بڑھ نہیں جاتا۔ اپنے وقت پر صبح و شام ہوتی ہے شر کے بعد خیر اور خیر کے بعد شر کا آنا بھی ایسا ہی سمجھو جیسے رات کے پیچھے دن اور دن کے پیچھے رات برابر لگی چلی آتی ہے۔ دنیا کے تمام خیرو شر کا سلسلہ ایک معین ضابطہ اور نظام کے ماتحت ہے جس کا توڑ ڈالنا کسی کے امکان میں نہیں۔ اس دنیا کی مکدر و منغض زندگی کو شب تاریک کے مشابہ سمجھو جس کے اندھیرے میں آدمی کو خیر و شر کے نتائج بالکل صاف دکھائی نہیں دیتے۔ بیشک حق تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین کو بھیجا کہ رات کی اندھیری میں مخلوق کو صحیح راستہ بتلائیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے اپنے درجے کے موافق اجالا کریں جس سے لوگوں کو خیر و شر کی حقیقت اور اس کے نتائج کا انکشاف ہوجائے۔ لیکن ایسا صریح اور بدیہی انکشاف جس میں کسی فرد بشر کو انکار یا شبہ کی مجال ہی باقی نہ رہے، اس وقت ہوگا جب ہماری دنیاوی زندگی کی رات ختم ہو کر فردائے محشر کا دن نکل آئے گا۔ انسان کے وہی اعمال جو دنیا کی دھندلی زندگی میں ہر وقت اس کے گلے کا ہار بنے ہوئے تھے، پر غفلت و جہالت وغیرہ کی تاریکی میں صاف نظر نہ آتے تھے قیامت کی صبح ہوتے ہی ایک کھلی کتاب کی شکل میں سامنے آجائیں گے جسے روز روشن کے اجالے میں ہر شخص بےتکلف پڑھ سکے گا۔ (فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ) 50 ۔ ق :22) اس وقت اپنے تمام چھوٹے بڑے اعمال کو اصلی رنگ میں دیکھ کر بول اٹھے گا۔ (فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ) 18 ۔ الکہف :49)
Top