Tafseer-e-Usmani - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور پڑھنے کا وظیفہ کیا ہم نے قرآن کو جدا جدا کر کے پڑھے تو اس کو لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر اور اس کو ہم نے اتارتے اتارتے اتارا3
3 انزال قرآن سے مقصود اصلی مطلب سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے جسے تدبر و تذکر کہتے ہیں۔ لیکن اس کے نفس الفاظ و حروف بھی نور وبرکت سے خالی نہیں۔ (كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) 38 ۔ ص :29) اسی لیے سورتیں اور آیتیں جدا جدا رکھیں تاکہ وظیفہ کے طور پر تلاوت کرنا بھی سہل ہو اور سننے والوں کے لیے حفظ و فہم میں بھی آسانی رہے۔ اور آہستہ آہستہ اس لیے اتارا کہ جیسے حالات پیش آئیں ان کے مناسب ہدایات حاصل کرتے رہیں۔ تاکہ وہ جماعت جسے آگے چل کر تمام دنیا کا معلم بننا تھا ہر آیت و حکم کے موقع محل کو بخوبی ذہن نشین کر کے یاد رکھ سکے اور آنے والی نسلوں کے لیے کسی آیت کے بےموقع استعمال کرنے کی گنجائش نہ چھوڑے۔
Top