Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 75
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ : غور وفکر کرنے والوں کے لیے
بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کو3
3 " متوسم " اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بعض ظاہری علامات و قرائن دیکھ کر محض فراست سے کسی پوشیدہ بات کا پتہ لگالے۔ حدیث میں ہے " اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ، یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ " بعض روایات میں " وَبِتَوْفِیْقِ اللّٰہِ " کی زیادت ہے، یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو، وہ خدا تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے۔ شاید " کشف " اور " فراست " میں بقول امیر عبدالرحمن خاں مرحوم اتنا ہی فرق ہو جتنا ٹیلیفون اور ٹیلیگراف میں ہوتا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ دھیان کرنے اور پتہ لگانے والوں کے لیے " قوم لوط " کے قصہ میں عبرت کے بہت نشان موجود ہیں۔ انسان سمجھ سکتا ہے کہ بدی اور سرکشی کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ خدا کی قدرت عظیمہ کے سامنے ساری طاقتیں ہیچ ہیں۔ " اس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ " اس کی مہلت پر آدمی مغرور نہ ہو، نہ پیغمبروں کے ساتھ ضد اور عداوت باندھے، ورنہ ایسا ہی حشر ہوگا۔ وغیر ذلک۔
Top