Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
لَعَمْرُكَ : تمہاری جان کی قسم اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَفِيْ : البتہ میں سَكْرَتِهِمْ : اپنے نشہ يَعْمَهُوْنَ : مدہوش تھے
قسم ہے تیری جان کی وہ اپنی مستی میں مدہوش ہیں15
15 ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو ہے۔ یعنی تیری جان کی قسم لوط کی قوم غفلت اور مستی کے نشہ میں بالکل اندھی ہو رہی تھی وہ بڑی لاپروائی سے حضرت لوط کی نصیحت بلکہ لجاجت کو ٹھکرا رہے تھے۔ ان کو اپنی قوت کا نشہ تھا، شہوت پرستی نے ان کے دل و دماغ مسخ کردیے تھے۔ وہ بڑے امن و اطمینان کے ساتھ پیغمبر خدا سے جھگڑ رہے تھے۔ نہیں جانتے تھے کہ صبح تک کیا حشر ہونے والا ہے۔ تباہی اور ہلاکت کی گھڑی ان کے سر پر منڈلا رہی تھی، وہ لوط کی باتوں پر ہنستے تھے اور موت انھیں دیکھ کر ہنس رہی تھی (تنبیہ) ابن عباس نے فرمایا خدا تعالیٰ نے دنیا میں کوئی جان محمد ﷺ کی جان سے زیادہ اکرم و اشرف پیدا نہیں کی۔ میں نے خدا کو نہیں سنا کہ اس نے محمد ﷺ کی جان عزیز کے سوا کسی دوسری جان کی قسم کھائی ہو۔ قرآن کریم میں جو قسمیں آئی ہیں ان کے متعلق ہم انشاء اللہ کسی دوسری جگہ ذرا مفصل کلام کریں گے۔
Top