Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 54
قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا اَبَشَّرْتُمُوْنِيْ : کیا تم مجھے خوشخبری دیتے ہو عَلٰٓي : پر۔ میں اَنْ : کہ مَّسَّنِيَ : مجھے پہنچ گیا الْكِبَرُ : بڑھاپا فَبِمَ : سو کس بات تُبَشِّرُوْنَ : تم خوشخبری دیتے ہو
بولا کیا خوشخبری سناتے ہو مجھ کو جب پہنچ چکا مجھ کو بڑھاپا اب کا ہے پر خوشخبری سناتے ہو14
14 چونکہ غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر خوشخبری سنی، تو پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سی معلوم ہوئی۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جب آدمی کوئی مسرت انگیز خبر خلاف توقع غیر معمولی طریقہ سے اچانک سنے تو باوجود یقین آجانے کے اسے خوب کھود کرید کر دریافت کرتا اور لہجہ تعجب کا اختیار کرلیتا ہے، تاخبر دینے والا پوری تاکید و تصریح سے خوشخبری کو دہرائے جس میں نہ کسی قسم کی غلط فہمی کا احتمال رہے نہ تاویل و التباس کا۔ گویا اظہار تعجب سے بشارت کو خوب واضح اور پختہ کرانا اور تکرار سماع سے لذت حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرز میں حضرت ابراہیم نے اظہار تعجب فرمایا۔ ابن کثیر کے الفاظ یہ ہیں۔ " قال متعجباً من کبرہ وکبر زوجتہ ومتحققًا للوعد فاجابوہ مؤکدین لمابشروہ بہ تحقیقًا وبشارۃ بعد بشارۃٍ " چونکہ سطح کلام سے ناامیدی کا تو ہم ہوسکتا ہے۔ جو اکابر خصوصاً اولوالعزم پیغمبروں کی شان کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے ملائکہ نے ( فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ ) 15 ۔ الجر :55) کہہ کر تنبیہ کی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " معلوم ہوا کہ کاملین بھی (کسی درجہ میں) ظاہری اسباب پر خیال رکھتے ہیں۔ "
Top