Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 29
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب سَوَّيْتُهٗ : میں اسے درست کرلوں وَنَفَخْتُ : اور پھونکوں فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِيْ : اپنی روح سے فَقَعُوْا : تو گر پڑو تم لَهٗ : اس کے لیے سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرتے ہوئے
پھر جب ٹھیک کروں اس کو اور پھونک دوں اس میں اپنی جان سے تو گر پڑیو اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے3
3 یعنی آدم کا پتلا ٹھیک کرکے اس قابل کردوں کہ روح انسانی فائض کی جاسکے پھر اس میں جان ڈال دوں جس سے ایک جماد انسان بن جاتا ہے، اس وقت تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ سب سجدہ میں گر پڑو (تنبیہ) " روح " (جان) کی اضافت جو اپنی طرف کی، یہ محض تشریف و تکریم اور روح انسانی کا امتیاز ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ یعنی وہ خاص " جان " جس میں نمونہ ہے میری صفات (علم و تدبیر وغیرہ) کا، اور جو اصل فطرت سے مجھے یاد کرنے والی اور بسبب خصوصی لطافت کے مجھ سے نسبتہً قریبی علاقہ رکھنے والی ہے۔ امام غزالی (رح) نے دوسرے عنوان سے اس اضافت پر روشنی ڈالی ہے فرماتے ہیں اگر آفتاب کو قوت گویائی مل جائے اور وہ کہے کہ میں نے اپنے نور کا فیض زمین کو پہنچایا، تو کیا یہ لفظ (اپنا نور) غلط ہوگا ؟ جب یہ کہنا صحیح ہے حالانکہ یہ آفتاب زمین میں حلول کرتا ہے نہ اس کا نور اس سے جدا ہوتا ہے، بلکہ زمین سے لاکھوں میل دور رہ کر بھی روشنی کی باگ اسی کے قبضہ میں ہے، زمین کا کچھ اختیار نہیں چلتا، بجز اس کے کہ اس سے بقدر اپنی استعداد کے نفع حاصل کرتی رہے، تو وراء الوراء خدا کا یہ فرمانا کہ میں نے آدم میں اپنی روح پھونکی، حلول و اتحاد وغیرہ کی دلیل کیسے بن سکتی ہے۔ " روح " کے متعلق مناسب کلام انشاء اللہ آئندہ (وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ ) 17 ۔ الاسراء :85) میں کیا جائے گا۔
Top