Tafseer-e-Usmani - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور بنایا ہم نے آدمی کو کھنکھناتے سنے ہوئے گارے سے1
1 آیات آفاقیہ کے بعد بعض آیات انفسیہ کو بیان فرماتے ہیں جس کے ضمن میں شاید یہ تنبیہ بھی مقصود ہے کہ جس ذات منبع الکمالات نے تم کو ایسے انوکھے طریقہ سے اول پیدا کیا، دوبارہ پیدا کر کے ایک میدان میں جمع کردینا اس کے لیے کیا مشکل ہے۔ (تنبیہ) آدمی کی پیدائش کے متعلق یہاں دو لفظ فرمائے " صَلْصَال " (بجنے والی کھنکھناتی مٹی جو آگ میں پکنے سے اس حالت کو پہنچتی ہے اسی کو دوسری جگہ " کالفخار " فرمایا) اور " حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ " (سڑا ہوا گارا جس سے بو آتی ہو) خیال یہ ہوتا ہے کہ اول سنے ہوئے گارے سے آدم کا پتلا تیار کیا، پھر جب خشک ہو کر اور پک کر کھن کھن بجنے لگا، تب مختلف تصورات کے بعد اس درجہ پر پہنچا کہ انسانی روح پھونکی جائے۔ روح المعانی میں بعض علماء کا قول نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کَاَنَّہ، سُبْحَانَہ، اَفْرَغَ الْحَمَا فَصَوَّرَ مِنْ ذَلِکَ تِمْثَالَ اِنْسَان اَجْوَفَ فَیَبِسَ حَتّٰی اِذَا نُقِرَ صَوَّتَ ثُمَّ غَیَّرَہ، طَوْرًا بَعْدَ طَوْرٍ حَتّٰی نَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہٖ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔ " حضرت شاہ صاحب لکھے ہیں مٹی پانی میں ترکی اور خمیر اٹھایا کہ کھن کھن بولنے لگی، وہ ہی بدن ہوا انسان کا۔ اس کی خاصیتیں سختی اور بوجھ اس میں رہ گئیں اسی طرح گرم ہوا کی خاصیت (حدت و خفت) جن کی پیدائش میں رہی۔ راغب اصفہانی نے ایک طویل مضمون کے ضمن میں متنبہ کیا ہے کہ " حماٍ مسنونٍ " اور " طینٍ لازبٍ " وغیرہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مٹی اور پانی ملا کر ہوا سے خشک کیا اور " فخّار " کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کسی درجہ میں آگ سے پکایا گیا یہ ہی ناری جزء آدمی کی شیطنت کا منشاء ہے۔ اسی مناسبت سے ایک جگہ فرمایا (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 14 ۝ ۙ وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ 15۝ۚ ) 55 ۔ الرحمن :55-54) راغب کا مضمون بہت طویل اور دلچسپ ہے، افسوس ہے ہم اس کا خلاصہ بھی یہاں درج نہیں کرسکتے۔
Top