Urwatul-Wusqaa - Nooh : 21
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِیْ وَ اتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْهُ مَالُهٗ وَ وَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًاۚ
قَالَ نُوْحٌ : کہا نوح نے رَّبِّ : اے میرے رب اِنَّهُمْ عَصَوْنِيْ : بیشک انہوں نے میری نافرمانی کی وَاتَّبَعُوْا : اور پیروی کی مَنْ لَّمْ : اس کی جو نہیں يَزِدْهُ : اضافہ کیا اس کو مَالُهٗ : اس کے مال نے وَوَلَدُهٗٓ : اور اس کی اولاد نے اِلَّا خَسَارًا : مگر خسارے میں
(نوح نے) کہا اے میرے رب انہوں نے میرا کہنا نہ مانا اور ان کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے خود ان کو نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہ دیا
نوح (علیہ السلام) کی شکایت بدرگاہ قاضی الحاجات کہ انہوں نے میرا کہا نہیں مانا 21 ؎ نوح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھانے میں اپنا پورا زور صرف کیا اور صبر و ثبات کی انتہا کردی لیکن قوم بھی ایسی اکڑ تھی کہ اس نے بھی نہ ماننے اور ضد کرنے میں آخری انتہا کو ہاتھ لگا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے بھیجنے والے رب کو بلا لیا اور مخاطب کرتے ہوئے اس طرح اپنی عرضداشت سنائی کہ اے میرے رب ! میری قوم کے لوگوں نے میری نافرمانی کی ، تو نے مجھے اپنا رسول اور ایلچی بنا کر یا یوں کہیے کہ سفیر بناکر بھیجا تھا۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ بغیر کسی لیت و لعل کے مجھے تسلیم کرلیتے لیکن انہوں نے میری نافرمانی کرنے میں حد کردی اور جس نے ان کو دعوت دی اور انہوں نے پرزور طریقہ سے میری دعوت کو ٹھکرا دیا اور برابر پس و پیش کرتے رہے اور انہوں نے پیروی کی تو ان ہی لوگوں کی ، ان کی اولادوں اور مالوں کی فراوانیوں نے ان کو نہ زیادہ کیا مگر خسارہ میں کیونکہ وہ دنیا کے مال پر ریجھ گئے اور آخرت کے فوائد کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس بات کی ذرا پروا نہ کی کہ یہ انعامات و احسانات کس نے کئے ہیں جن سے ہم استفادہ کر رہے ہیں اور ہم اس کے احکامات کی سلسل نافرمانی کرتے چلے جا رہے ہیں تو آخر ہم کو اس کا حق کیسے ہے کہ ہم کھاتے اسی کا ہیں اور گاتے دوسروں کا جن کی کسی معاملہ میں ذرا برابر بھی شرکت نہیں ہے۔
Top