بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
بلاشبہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تاکہ قبل اس کے کہ ان پر (قوم کے لوگوں پر) دردناک عذاب آئے تو اپنی قوم کو ڈرائے
بلاشبہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان پر عذاب نازل ہونے سے قبل سمجھایا جائے 1 ؎ سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بعد نوح (علیہ السلام) پہلے نبی و رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ” رسالت “ سے نوازا۔ صحیح مسلم باب شفاعت میں حدیث ہے کہ : (یا نوح انت اول الرسل الی الارض) ” اے نوح ! تو زمین پر سب سے پہلا رسول بنایا گیا ہے “ نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن کریم کی 26 سورتوں میں آیا ہے اکثر جگہ مختصر ہے لیکن سورة الاعراف ، سورة ہود ، سورة الانبیاء ، سورة الشعراء ، سورة الصاقات اور سورة المؤمن میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور سورة نوح تو مکمل طور پر آپ (علیہ السلام) ہی کے ذکر خیر پر نازل ہوئی ہے۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے قوم اللہ تعالیٰ کی توحید اور صحیح مذہبی روشنی سے یکسر نا آشنا ہوچکی تھی اور حقیقی الہ کی جگہ خود ساختہ معبودوں نے لے لی تھی۔ قوم میں جو لوگ اولیاء اللہ سمجھے جاتے تھے ان کے بت اس قوم نے گھڑے تھے ، ان کو سامنے رکھ کر ان بزرگوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے جو روز اول اعلان کیا تھا اسی اعلان کے مطابق قوم کی رشد و ہدایت کے لئے ان ہی میں سے نوح (علیہ السلام) کو ایک بادی اور اللہ تعالیٰ کا سچا رسول بنا کر مبعوث کیا گای۔ زیر نظر آیت میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو راہ حق کی طرف پکارا اور سچے مذہب کی دعوت دی لیکن قوم نے ان کی ایک نہ مانی اور نفرت و حقارت کی نظر سے ان کو دیکھا اور انکار کرتے رہے اور جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگوں کا انکار بڑھتا ہی چلا گیا۔ نوح (علیہ السلام) نے انتہائی کوشش کی کہ بدبخت قوم سمجھ جائے لیکن قوم کے لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جس قدر نوح (علیہ السلام) کی طرف سے تبلیغ حق میں جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے بغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا اور ایذا رسانی اور تکلیف وہی کے تمام وسائل کا استعمال کیا گیا۔ قوم کے رئوسا اور امراء نے نوح (علیہ السلام) کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور ان کی تکذیب و تحقیر کا کوئی پہلو بھی نہ چھوڑا اور ان کے پیروئوں نے ان ہی کی تقلید میں ہر قسم کی تذلیل و توہین کے طریقوں کو نوح (علیہ السلام) پر آزمایا اور نوح (علیہ السلام) نے بھی ان کو عذاب الٰہی کی لپیٹ میں آنے کی پرزور دھمکی دی۔
Top