Urwatul-Wusqaa - Nooh : 17
وَ اللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًاۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ نے اَنْۢبَتَكُمْ : اگایا تم کو مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے نَبَاتًا : اگانا
اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے (ایک خاص طور پر) پیدا کر دیا
اللہ نے تم کو اس زمین سے ایک طرح سے پیدا کردیا ہے 17 ؎ (اتیتکم) اس نے تم کو اگایا۔ اتبت اتبات سے معاضی کا صیغہ واحد مذکر غائب کم ضمیر جمع مذکر حاضر اتبات کا استعمال نباتات کو اگانے اور جاندار کے بڑھانے دونوں کے متعلق ہوتا ہے اور اس جگہ دوسرے ہی معنی مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک خاص طریقہ کے ساتھ اس زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور اس میں اس کی نشو ونما کی ہے۔ انسان اول کی پیدائش پر غور کرو تو اس میں بیحد و شمار حکمتیں اور قدرتیں مخفی ہیں اور اگر تخلیق اول کے بعد اولاد در اولاد پیدا کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے اس پر غور کرو تو بھی اس کی حکمتیں اور قدرتیں واضح ہیں اور ان کی وضاحت پیچھے بہت سے مقامات پر ہوچکی ہے۔ زیر نظر آیت میں دنیا کے سارے انسانوں کے پیدا کرنے اور بڑھانے کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن دونوں جگہ کی تفسیر کا نمایاں فرق دیکھنا ہو تو اس جگہ اس آیت کی تفسیر کے ساتھ سورة آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر کو بھی دیکھیں اور اندازہ کریں کہ اس جگہ کیا خاموشی ہے اور وہاں کیا شوروغوغا ہے۔ یہاں وہ کس طرح صرف اگانے اور بڑھانے پر اکتفا کیا گیا ہے اور وہاں اگانے اور بڑھانے کی تفسیر میں مفسرین کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں وہاں مریم کے ایک دن میں اتنا بڑھنے کا ذکر جتنا عام آدمی ایک سال میں بڑھتا ہے کا ذکر کس لئے کیا گیا اور یہاں کیوں خاموشی رہی ؟ تو تم کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے مفسرین اور مترجمین نے قرآن کریم کو کیا سے کیا بنا دیا ہے اور ان خوش فہمیوں سے کیا کیا نتائج اخذ کئے ہیں۔ ہم نے اشارہ کردیا ہے اور اسی پر اکتفا کر رہے ہیں۔ یہ قارئین کرام کا اپنا کام ہے کہ وہ ایسے الفاظ پر غوروفکر کئے بغیر آنکھیں بند کر کے تفسیر کو نہ پڑھیں بلکہ آنکھیں کھول کر اور دیانت و امانت کی عینک لگا کر پڑھیں تاکہ ان مبالغہ آرائیوں سے بچ کر قرآن کریم کو طوطا مینا کی کہانی نہ بنا دیں بلکہ علم و عرفان کا منبع سمجھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بنایا ہے۔
Top