Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور پھر وہی ہے جس نے تمہیں اکیلی جان سے نشو ونما دی پھر تمہارے لیے قرار پانے کی جگہ ہے اور سپردگی کا مقام ہے ، بلاشبہ جو لوگ بات کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں ان کے لیے ہم نے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کردی ہیں
وہی ہے جس نے تم کو اکیلی جان سے نشو ونما دی اس میں بھی کتنی ہی نشانیاں ہیں : 151: ” پھر دیکھو وہی ہے جس نے تمہیں اکیلی جان سے نشو ونما دی۔ “ آیت کے اس حصہ کا مطلب ہم پیچھے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة النساء کی آیت کی اول بڑی تفصیل سے بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔ ” تمہارے لئے قرار پانے کی جگہ ہے اور سپردگی کا مقام ہے۔ “ اس میں ایک جگہ کو قرار پانے کی جگہ کہا گیا اور دوسری کو سپردگی کا مقام بیان کیا گیا اس لئے جان لینا چاہئے کہ انسان کے لئے مستقر کیا ہے ؟ اور مستودع کیا ؟ مستقر وہ جو کسی چیز کے لئے جائے قرار ہو اور مستودع ودیعت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو کسی کے پاس عارضی طور سے چند روز رکھ دینے کے۔ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کی ایک جگہ عارضی ہے اور ایک مستقل رہنے کی جگہ ہے۔ قرآن کریم نے تو اس قدر بیان کیا لیکن مفسرین نے اس کی تعبیریں مختلف کیں کہ انسان کے لئے مستقر کیا ہے اور مستودع کیا ؟ کسی نے کہا کہ مستودع ماں کا پیٹ ہے اور مستقر یہ دنیا کی زندگی اور کسی نے کہا کہ مستودع کیا ہے اور مستقر آخرت ہے اور علاوہ ازیں بھی مختلف اقوال بیان کئے گئے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی کہ مستقر دار الاخرت ہے خواہ وہ جنت ہے یا دوزخ اور انسان کی ابتداء آفرنیش سے آخرت تک جتنے مراحل اور درجات ہیں اور جہاں جہاں اس کا قیام ہے وہ سب مستودع میں داخل ہے خواہ وہ شکم مادر ہو یا زمین پر رہنے سہنے کی جگہ یا قبر و برزخ۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ : لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍؕ0019 (الانشقاق 84 : 19) ’ ’ تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ تمہیں ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے ، بڑھاپے سے موت ، موت سے برزخ ، برزخ سے دوبارہ زندگی۔ دوبارہ زندگی سے میدان حشر پھر حساب و کتاب اور جزا وسزا کی بیشمار منزلوں سے لازماً گزرنا ہے۔ ان ساری منزلوں پر ایک ہی لفظ مستودع کا اطلاق ہوتا ہے اور جائے قرار جس کے بعد موت نہیں ہے اور اس طرح کا ادلنا بدلنا بھی نہیں وہ ” مستقر “ ہے۔ ” بات کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے اس میں کتنی ہی نشانیاں کھول کھول کر بیان کردی گئی ہیں۔ “ اس کی تفصیل اوپر کی آیت : فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ 0097 میں آچکی ہے کیونکہ ایک ہی ایک ہی بات کو دو طریقوں سے بیان کیا گیا ہے فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں دلالت واضح وصریح تھی اس لئے یَّعْلَمُوْنَ 0097 کا لفظ کافی تھا اس آیت میں دلالت خفی و دقیق ہے اسلئے یَّفْقَهُوْنَ 0098 کے الفاظ لائے گئے ۔ (مدارک) ایک جان سے پیدائش ، مستقر اور مستودع کی تشریح میں واقعی اخفا تھا جس کو حسب طاقت کھول دیا گیا۔ اللہ کرے کہ تفہیم ہوجائے۔
Top