Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 92
وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ
وَهٰذَا : اور یہ كِتٰبٌ : کتاب اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے نازل کی مُبٰرَكٌ : برکت والی مُّصَدِّقُ : تصدیق کرنے والی الَّذِيْ : جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اپنے سے پہلی (کتابیں) وَلِتُنْذِرَ : اور تاکہ تم ڈراؤ اُمَّ الْقُرٰي : اہل مکہ وَمَنْ : اور جو حَوْلَهَا : اس کے ارد گرد وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَهُمْ : اور وہ عَلٰي : پر (کی) صَلَاتِهِمْ : اپنی نماز يُحَافِظُوْنَ : حفاظت کرتے ہیں
اور دیکھو یہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا برکت والی ہے اور جو اس سے پہلے نازل ہوا ! اس کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس لیے نازل کی تاکہ تم ام القریٰ کے باشندوں کو اور ان کو جو اس کے چاروں طرف بستے ہیں متنبہ کرو جو لوگ آخرت کا یقین رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی نگہداشت سے غافل نہیں ہوتے
آپ ﷺ یہ قرآن کریم مکہ اور حوالئی مکہ کو سنائیں تاکہ وہ متنبہ ہوجائیں : 142: قرآن کریم کیا ہے ؟ کتاب اللہ جس کو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ اقدس میں نازل کیا ہے جو ایسی بابرکت کتاب ہے کہ اس نے اپنے سے پہلے آنے والی کتابوں کی تصدیق کی ہے۔ اس طرح اس نے سب کو ملانے کی کوشش کی ہے متفرق کرنے کی نہیں۔ تورات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کو کیوں نازل کیا ؟ اس کے نزول سے کیا کمی پوری ہوئی ؟ یہی کہ جو باتیں اہل کتاب نے چھپا دی تھیں ان کو ظاہر کردیا جائے اور جو باتیں وہ اور ان کے آباؤاجداد ایک مدت ہوئی کہ سمجھ نہ سکے تھے ان کو اس نے بڑے واضح طریقہ سے سمجھا دیا اسلئے حق تو یہ تھا کہ یہ لوگ قرآن کریم اور جس پر قرآن کریم نازل ہوا اور جس نے قرآن کریم کو نازل کیا سب کے احسان مند ہوتے اور ان پر خوش ہوتے لیکن یہ خوش ہونے کی بجائے الٹے ناراض ہوگئے اور گدھوں کی طرح لاتیں چلا نا شروع کردیں تو آپ اے پیغمبر اسلام ! ان کے پیچھے نہ لگیں بلکہ آپ اس قرآن کریم کے ذریعہ اُمّ القریٰ یعنی مکہ والوں کو اور حوالئی مکہ ڈرائیں اور ان کے کئے کا انجام ان کو بتائیں اس طرح جوں جوں اس کی روشنی پھیلتی جائے گی سب کچھ خود بخود روشن ہوتا چلا جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں انہی مردوں میں ایسے زندہ بھی ہیں جو اس روشنی کی کرنیں پڑتے ہی بھاگ جائیں گے اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کریں گے اور اس طرح آپ ﷺ پر جو ان کا حق ہے جہاں آپ ﷺ پیدا ہوئے اور وہ آپ ﷺ کو ہر لحاظ سے جانتے اور پہچانتے بھی ہیں وہ حق ادا ہوگا اور کل کو ان کی یہ حجت نہ رہے گی کہ ہمارے رسول نے آتے ہی ہمیں چھوڑکر اہل کتاب کو مخاطب کرلیا اور انہی کو بات سمجھانے کی کوشش کی اور ہم سے کوئی بات ہی نہیں کی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کے جنم بھوم کا بھی اس پر کچھ حق ہوتا ہے جس کو ادا کرنا لازم ہوتا ہے اور یہ ایک فطری چیز ہے اس لئے قرآن کریم نے اس کی طرف توجہ دلا دی۔ آخرت کا یقین رکھنے والے قرآن کریم سے انحراف کر ہی نہیں سکتے : 143: آخرت کا یقین رکھنے والوں سے مراد ظاہر ہے اہل کتاب کے صالحین اور نیک لوگوں ہی سے ہے اور یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہر آسمانی کتاب نے اخرت کا تصور دیا ہے اور اخرت کا یقین چونکہ سچائی ہے اور ایک سچائی کو سچائی مان لینے والے کے لئے دوسری سچائی کا تسلیم کرنا یقیناً آسان ہوتا ہے جس طرح ہر برائی دوسری برائی کی طرف آمادہ کرتی ہے بالکل اسی طرح ہر سچائی دوسری سچائی کی طرف رغبت دلاتی ہے بشرطیکہ پہلی سچائی کو سچائی سمجھ کر تسلیم کیا ہو رواجاً اس کو قبول نہ کیا گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ جن اہل کتاب کو آخرت پر یقین ہے وہ ییناً قرآن کریم کی سچائی کو بھی قبول کرتے ہیں اور رہے وہ لوگ جن کے اندر سرے سے آخرت کا کوئی خوف ہی باقی نہیں رہ گیا ان سے کسی خیر کی توقع بالکل عبث ہے یہ لوگ دل لگی کے لئے کوئی نہ کوئی نئی بحث اور کوئی نہ کوئی کٹ حجتی ہی تلاش کریں گے اور شرارتی ذہن ہمیشہ اس طرح شرارتیں سوچتا رہتا ہے۔ جب انہوں نے آخرت میں حقیقت کو جھٹلایا ہے تو ان کو دوسری حقیقتوں سے انکار کرتے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے۔ اس جگہ قرآن کریم کی متعدد صفات اور خصوصیات بیان کی جا رہی ہیں جس کے بارے میں اہل کتاب اور اہل مکہ اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے بھی یا نہیں۔ فرمایا کہ ” یہ مبارک ہے “ یعنی برکت والی۔ امت اسلامیہ کی ساری تاریخ قرآن کریم کی اس ایک صفت کی جلوہ گاہ ہے۔ عرب کے ان پڑھ ساربان وسیع و عریض ملکوں اور عظیم سے عظیم تر قوموں کی زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور ساری دنیا عدل و انصاف اور پاکیزگی اور تقویٰ کے نور سے جگمگا اٹھتی ہے۔ وہ ایک ایک کوڑی کے لئے انسانی جان ضائع کرنے والا بھوکا بدواتنا سیر چشم اور دل کا غنی ہوجاتا ہے کہ کسریٰ کے محلات کی ثروت اور بیش قیمت سازوسامان اس کی حفاظت میں مدینہ طیبہ بھیجا جاتا ہے اور اس میں ایک سوئی کی خیانت بھی نہیں ہوتی۔ ایک سنگ دل عرابی اس کتاب کے اثر سے اتنا رحیم و کریم ہوجاتا ہے کہ وہ اس خیمہ کو اکھاڑنا بھی گوارا نہیں کرتا جس میں ایک فاختہ نے انڈے دے رکھے ہیں۔ یہ کس چیز کی برکت ہے جس نے حالات کو اس قدر مختلف کر کے رکھ دیا وہ قرآن کریم ہی کی برکت تو ہے۔ پھر انکی یہ صفت بھی بتائی کہ جب انہوں نے ایک سچائی یعنی یوم آخرت پر ایمان کو قبول کیا تو وہ دوسری سچائی قرآن کریم کی ہدایات کو قبول کرنے کے لئے مائل ہوگئے اور پھر ایک مزید اچھائی یعنی ” صلوٰۃ “ کی ادائیگی میں مخلص ٹھہرتے ہیں اور اس کے قیام کی ہر لحاظ سے حفاظت کرتے ہیں۔ اس طرح اس آیت نے یوم آخرت پر ایمان ، قرآن کریم پر اللہ کی کتاب ہونے پر ایمان و صلوٰۃ موقت کے قیام پر ایمان تین چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح سے وابستہ وپیوستہ کردیا کہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہوگئیں اس طرح صلوٰۃ کی انتہائی اہمیت واشرفیت بھی ظاہر ہوگئی۔
Top