Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے راہ حق دکھا دی پس تم بھی انہی کی پیروی کرو تم کہہ دو میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمام دنیا کے لیے نصیحت ہے
یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی آپ ﷺ بھی ان کی ہدایت کی اقتداء کریں : 137: ” اقْتَدِهْ 1ؕ“ کا مادہ ق د و ہے۔ اقتداء پیروی کو کہتے ہیں۔ یعنی جو آپ ﷺ سے پہلے کے نبی و رسول کرتے آئے ہیں آپ ﷺ بھی ویسا ہی کریں۔ گذشتہ حضرات کا طریقہ کیا تھا جس پر چلنے کا حکم نبی اعظم و آخر ﷺ کو مل رہا ہے ؟ اس طریقہ کا بیان پیچھے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا اور ایک رسول کے واقعات کا بیان فرما کر ، دوسروں کا صرف ذکر کرنے کا مطلب ہی یہ تھا کہ یہ سب کے سب اپنے اپنے وقتوں میں وہی کچھ کرتے رہے ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا اور اے ہمارے رسول ! محمد رسول اللہ ﷺ آپ کو بھی وہ سب کچھ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو آپ ﷺ سے پہلے کے سارے پیغمبر کرتے آرہے ہیں۔ ان کا طریقہ بھی صبر و استقامت کا تھا۔ ان سب نے اپنے اپنے معاصر منکرین کے ہاتھوں سخت سے سخت مصائب اٹھائے تھے لیکن یہ سب کے سب اس کے باوجود اپنی اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے تھے اور آپ ﷺ کو بھی اسی طرح ثابت قدم رہنا ہے۔ گویا اقتداء سے مقصود صرف اخلاق فاضلہ اور صفات کمال میں ان جلیل القدر انبیاء کی موافقت کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ خوبی اور کمال جو دوسرے انبیائے کرام میں متفرق طور پر پایا جاتا تھا جیسے شرک کے خلاف ابراہیم (علیہ السلام) میں درس و تدریس کے لحاظ سے ادریس (علیہ السلام) میں ، جلالت کے لحاظ سے موسیٰ (علیہ السلام) میں ، تقویٰ وورع کے لحاظ سے یحییٰ (علیہ السلام) میں ، منکسر المزاجی کے لحاظ سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) میں پایا جاتا تھا نبی اعظم و آخر ﷺ میں یہ سارے کے سارے کمالات جمع کردیئے گئے اس لئے آپ ﷺ سارے انبیائے کرام (علیہ السلام) ، اجمل و اکمل ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎ حسن یوسف ؓ دم عیسیٰ ید بیضاداری ۔ آنچہ خوباں ہمہ داردنہ توتنہاداری ” تم کہہ دو میں تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا “ یہ وہی بات ہے جس کا اعلان سب انبیائے کرام سے کرایا گیا اور کسی نبی نے بھی دعوت اسلامی کو ہمیشہ نہیں بنایا اور یہی اعلان نبی اعظم و آخر ﷺ سے کرایا گیا اس لئے کہ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نبوت کا دعویٰ صرف مال و دولت اکٹھا کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ اعلان کر دیجئے کہ دعوت اسلام میرا پیشہ نہیں بلکہ مقصد حیات ہے۔ میں اس کے ذریعہ سے دولت جمع کرنا نہیں چاہتا ، اس کو ذریعہ معاش بنانا نہیں چاہتا ، اس کی کمائی سے پیٹ پروری کرنا نہیں چاہتا ، اس کو ذریعہ اقتدار بنانا نہیں چاہتا۔ میرا مدعا تو فقط یہ ہے کہ تم گمراہی کی دلدل سے نکل کر شاہراہ ہدایت پر آجاؤ ۔ تمہارے رب سے تمہارا ٹوٹا ہوا رشتہ پھر جوڑ دینا چاہتا ہوں۔ جو کتاب میں تمہیں پڑھ کر سناتا اور سمجھاتا ہوں جس کے مطابق عمل کرکے تم کو دکھاتا ہوں اس سے میری کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں یہ تو ہر قسم کی اغراض سے بالاتر ہے جو ایک آفاقی دعوت رشد اور ایک عالمی پیغام ہدایت ہے۔
Top