Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 85
وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَ١ؕ كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ
وَزَكَرِيَّا : اور زکریا وَيَحْيٰى : اور یحییٰ وَعِيْسٰي : اور عیسیٰ وَاِلْيَاسَ : اور الیاس كُلّ : سب مِّنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیک بندے
اور زکریا ، یحییٰ ، عیسیٰ اور الیاس (علیہم السلام) کہ یہ سب نیک انسانوں میں سے تھے
حضرت یحییٰ ، عیسیٰ اور الیاس (رح) کا تعلق بھی ذریت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے ہے : 132: زیر نظر آیت میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت میں شمار کیا گیا ہے۔ اب ذریت باپ سے ہوتی ہے یا ماں سے ؟ قابل غور ہے۔ اگر ذریت کا تعلق باپ سے ہے تو اس سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بےباپ مان کر یا جبریل (علیہ السلام) کو باپ مان کر جیسا کہ علمائے اسلام میں سے اکثر نے تسلیم کیا ہے وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ذریت ابراہیم میں کس طرح داخل کریں گے یہ ان ہی سے پوچھ لیا جائے اور یہ بھی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) غیر اسرائیلی ہو کر بنی اسرائیل کی طرف کیسے مبعوث ہوئے ؟ جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تک سارے انبیائے کرام کا حسب و نسب اپنی قوم ہی کے ساتھ تھا۔ کچھ لوگوں نے سیدہ مریم کو اسرائیلی مان کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ذریت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت سے جب اللہ نے بیان کردیا تو اب اس کے سوا اس کا حل کیا ہو سکتا ہے کہ ان کی طرف سے اسرائیلی مان کر ذریت ابراہیم میں داخل کرلیا جائے۔ لیکن ہمارے مولانا مودودی (رح) نے ان کی والدہ ماجدہ کا بھی اسرائیلی ہونا شبہ میں ڈال دیا ہے جیسا کہ انہوں نے فرمایا ” تاریخ میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کہ حضرت مریم کے والد کون تھے اور انکی والدہ کس قبیلے کی تھیں ؟ “ (تفہیم القرآن ج اول ص 247) قرآن کریم کی واضح آیت کہ : ” وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ “ (العنکبوت 29 : 27) آپ کی ذریت کے ساتھ نبوت خاص کردی گئی اس کا مفہوم کیا ہوگا ؟ العجب کو مولانا مودوی (رح) نے ابراہیم ، اسحٰق ، یعقوب اور یوسف (علیہم السلام) چاروں کو نام بنام ذکر فرما کر اسرائیلی بتایا ہے۔ (تفہیم لقرآن ج 1 ص 459) حالانکہ ابراہیم اور اسحٰق (علیہما السلام) کو اسرائیلی کیسے شمار کرلیا ؟ جب کہ یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام اسرائیلی ہو اور یعقوب خود اسرائیلی ہوں تو ان کا باپ اسحٰق اور دادا ابراہیم (علیہما السلام) کیسے اسرائیلی ہوگئے ؟ تو یہ وہی بات ہوئی جو یہودی یا عیسائی کیسے ہو سکتا تھا جب کہ یہودیت اور عیسائیت ابراہیم (علیہ السلام) کے مدتوں بعد آئی۔ “ اور ان کو موٹی عقلی کے قرار دیا کہ اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکے کہ پہلا پچھلے کے دین پر نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ پچھلا پہلے کے طریقہ پر ہوتا ہے۔ بہرحال ہمارا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو جو اسرائیل کے باپ دادا تھے اسرائیلی بنا دیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے اسرائیلی یا ابراہیمی نہ ہونے یا کم از کم ان کے ذریت ابراہیم ہونے میں شبہ ہی میں رہے اور دوسروں کو بھی شبہ میں رکھا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اسرائیلی سلسلہ کا آخری نبی بھی تسلیم کیا گویا بڑے لوگوں کی مرضی ہے وہ چاہیں کیا سے کیا کر دکھائیں اس لئے کہ بڑوں کی بڑی ہی باتیں ہوتی ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ابراہیم (علیہ السلام) ، اسحٰق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کی کتاب کا بیان سارے کے سارے ہی جناب مودودی۔ سے بڑے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب کوئی ایک بار سیدھی راہ کو چھوڑ دیتا ہے تو پھر وہ ادھر ادھر بھٹکتا ہی پھرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی زیرک اور کتنا ہی سمجھ دار کیوں نہ ہو۔
Top