Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہی اپنے بندوں پر زور اور غلبہ رکھنے والا ہے اور تم پر حفاظت کرنے والی قوتیں بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اسے وفات دے دیتے ہیں اور وہ کسی طرح کا قصور نہیں کرتے
وہ اپنے بندوں پر اپنے علم ، حکمت اور قدرت کے لحاظ سے غالب ہے : 96: ” وَ ہُوَ الْقَاہِرُ “ وہ قبضہ قدرت میں رکھنے والا ہے ، زبردست ہے ، تسلط میں رکھنے والا۔ قاہر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جو دوسری بار اس سورة میں آرہی ہے اس سے قبل آیت 18 میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ خیال رہے کہ قاہر کا لفظ عر بی زبان میں ان معنوں میں استعمال نہیں ہوتا جن معنوں میں اردو میں استعمال ہوتا ہے بلکہ اس کے معنی اختیار اور قابو میں رکھنے کے ہیں۔ اس سے لفظ ” قہار “ ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں کہ وہ تمام جہانوں اور تمام بندوں کو اپنے قابو میں رکھنے والا ہے اور سب کچھ اس کی مٹھی ہے۔ کوئی چیز اس کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں۔ سارے انسان اس کے قابو میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ قوتیں اور طاقتیں جن کو ملا مکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی فرشتے وہ اس نے حفاظت کے لئے مقرر کر رکھے ہیں اور وہی ہیں جو اس کے حکم کے مطابق وقت مقرر تک انسانوں کی حفاظت و نگہبانی کرتے ہیں اور اس نے اپنی مخلوق کو پیدا کر کے چھوڑ دیا ہے یا کسی دوسرے کی تحویل میں دے دیا ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ ہر وقت ہرچیز اس کے کنٹرول میں ہے وہ نہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے نہ تھکتا ہے بلکہ وہ ان سب باتوں سے پاک ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ فرشتے وقت مقرر پر تمہاری جانیں قبض کرلیتے ہیں : 97: ہرچیز کی موت کا ایک وقت مقرر ہے اس طرح سارے انسانوں کی موت کا وقت بھی متعین کردیا گیا ہے۔ نظام الٰہی میں وہ طے شدہ وقت جب آجاتا ہے تو فرمایا ہمارے فرستاہ فرشتے ہی ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں اور اس طرح جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ محض اس نظام الٰہی کی تفہیم کے لئے استعارات ہیں اگر اس زبان میں بات نہ کی جائے تو وہ کون انسان تھا جو اس کی حقیقت کو سمجھ سکتا ؟ فرمایا ان فرستادہ قوتوں سے بھی کس کی مجال ہے کہ وہ اس کام میں کوئی کوتاہی کریں اس لئے کہ طاقت قوت کا تعلق ہمیشہ طاقت و قوت والے سے ہے اس کی کیا مجال کہ وہ قوت لگانے والے کے خلاف حکم کام کرے جب کہ وہ اس کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کی موت بلکہ کسی ذی روح کی موت مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی اور کوئی جان بھی خود جان والے کے اپنے قبضے میں نہیں ہے کہ وہ چاہے جب تک اس کو رکھے اگر ایسا ہوتا توشاید ہی کوئی جان دینے کے لئے تیار ہوتا۔ اس کی کرشمہ سازیوں کو سمجھنے کے لئے الفاظ کا پردہ ضروری ہے اور یہی طریقہ بیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے جان قبض کرنے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں اور ایسا ہونا ضروری تھا کیوں ؟ اس لئے کہ الفاظ تو ہر بیان کرنے والے کے اپنے ہیں۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ روح قبض کرنے والوں کا اپنا اختیار و ارادہ نہیں ملک الموت کا کام تعمیل حکم ہے فقط۔ یہ انسان کی نظریں اور فکری کوتاہیاں ہیں کہ وہ ملک الموت کو فاعل مختار و متصف بالذات سمجھ کر اس کی پوجا پاٹ شروع کردیں۔ قرآن کریم کی یہ آیت اس طرح کی دوسری آیات میں سے کہیں بھی کوئی ایسا تصور نہیں ملتا کہ موت کے فرشتوں کو اختیار دیا گیا ہو کہ وہ جب چاہیں کسی کی روح قبض کرلیں بلکہ اسلام میں ان طاقتوں اور قوتوں کو باختیار تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی طاقت وقوت اپنا اختیار نہیں رکھتی۔
Top