Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 53
وَ كَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْۤا اَهٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا١ؕ اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح فَتَنَّا : آزمایا ہم نے بَعْضَهُمْ : ان کے بعض بِبَعْضٍ : بعض سے لِّيَقُوْلُوْٓا : تاکہ وہ کہیں اَهٰٓؤُلَآءِ : کیا یہی ہیں مَنَّ اللّٰهُ : اللہ نے فضل کیا عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْۢ بَيْنِنَا : ہمارے درمیان سے اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِالشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
اور دیکھو اس طرح ہم نے بعض انسانوں کو بعض انسانوں کے ساتھ آزمایا ہے کہ کہنے لگے کیا یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے انعام کے لیے ہم میں سے چن لیا ہے ؟ کیا اللہ بہتر جاننے والا نہیں کہ کون قدر کرنے والے ہیں ؟
اگر ایسا کرو گے یعنی ان غرباء کو دور کرو گے تو زیادتی کرنے والوں میں شمار ہونے لگو گے : 82: ایسا کرنے کا کبھی آپ ﷺ کا ارادہ ہوا نہ ہی اس کا کوئی امکان تھا لیکن جن لوگوں نے انسانیت کا معیار دولت و مال کو سمجھا تھا ان کو جواب دینا بھی تو بہر حال ضروری تھا اور وہی ان کو دیا جارہا ہے۔ فرمایا کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ان غرباء کو دورکر کے ان رؤسا کو کیوں قریب لائیں گے ؟ اس کی آخر ضرورت ؟ ان لوگوں کا حساب یعنی رؤسا مکہ کا حساب آپ کے ذمہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ ضرور انکو ان کے مطالبہ کے مطابق الگ مجلسوں میں آنے کی دعوت جاری کردیں تاکہ وہ ضرور ہدایت یافتہ ہوں اور اس طرح وہ ہدایت یافتہ ہوں گے تب جا کر آپ سرخروہوں گے۔ لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ کچھ لوگوں نے نبی رحمت ﷺ کے ذمہ ایسے واقعات لگا دیئے کہ ان کو دیکھ اور پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے کہ ” آپ ﷺ نے ایک اندھے کو دیکھا جو آپ ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کو اس طرح متوجہ کرتا دیکھ کر تیوری چڑھائی اور ماتھے پر شکن آگئے کہ اس اندھے نے آداب کا خیال نہ کیا اور جب آپ ﷺ نے روسائے مکہ کو دعوت دے رہے تھے وہ درمیان میں آکر شور کرنے لگا اور اندھا ہونے کے باعث اس کو معلوم نہ ہوسکا۔ استغفر اللہ کہ ایسا کوئی واقعہ معرض وجود میں آیا ہو اور سورة عَیَسَ میں جہاں یہ واقعہ نقل کیا جاتا ہے اس میں جو لفظ عَیَسَ وتولیٰ “ کے الفاظ آئے ہیں اس کے فاعل نبی رحمت ﷺ کبھی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی کبھی آپ ﷺ نے کوئی ایسی حرکت فرمائی بلکہ ایک کافر کا فعل تھا جو غلطی سے رسول اللہ ﷺ کے ذمہ لگادیا گیا تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔ یہ تو بعض انسانوں کو بعض سے آزمایا گیا تھا حالانکہ اللہ کو سب کا حال معلوم ہے : 83: مال و دولت کی تقسیم کا راز بھی بہت پیچیدہ ہے۔ یہ چلتے چلتے سمجھ میں آجانے والی بات نہیں پھر اس کے لئے صرف ایک ہی قانون نہیں ہے کہ اس کو بتا دیا جائے تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ ہاں ! حلال رزق کمانے کے لئے جائز طریقے استعمال کرنا انسان کی ذمہ داری ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ناجائز ذریعوں سے کمایا ہوا مال بھی رزق حلال نہیں ہوسکتا اور حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال بھی کبھی جائز اور درست نہیں ہوتا۔ دوسری یاد رکھنے کی بات یہ ہوئی کہ مال و دولت اکثر حالات میں ” آزمائش “ ہی ہوتا ہے۔ مال و دولت کی آزمائش میں مبتلا کرنا سنت اللہ سے ہے۔ فرمایا ہم نے دنیا میں کسی کی دولت جو دی ہے تو اس بناء پر نہیں دی کہ وہ اس کا حق دار تھا اور بالکل اسی طرح جس کو غربت دی ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس کا سزاوار تھا۔ بلکہ ایک کو دولت اور دوسرے کو غربت دے کر دونوں کا امتحان کیا ہے۔ وہ جن کو مال و دولت اور جاہ و جلال دیتا ہے تو اس لئے دیتا ہے کہ وہ دیکھے یعنی لوگوں کو معلوم کرادے کہ وہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمت پا کر اس کے شکر گزار ، متواضع اور فرمانبردار بندے بنتے ہیں یا مغرور و متکبر ہو کر اکڑنے والے اترانے والے غریبوں کو دھتکارنے والے اور انہی نعمتوں کے اجارہ دار بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح جن کو غربت دیتا ہے تو یہ دیکھنے کے لئے دیتا ہے یعنی سب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ اپنی غربت پر صابر اور اپنی نان جویں پہ قانع اپنی محنت و مشقت کے انجام پر راضی اور اپنے فقر میں خود دار رہتے ہیں یا مایوس و دل شکستہ ہو کر پست ہمت ، بےحوصلہ ، تقدیر کے شاکی ، خدا سے برہم اور ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ فرمایا اس امتحان میں ہم نے ان کو ڈالا ہے۔ ہم نے ان کو اپنے فضل سے نوازاتا تاکہ وہ ہمارے شکر گزار بندے بنیں لیکن ان کی کج فہمی کے باعث ہماری نعمت انکے لئے فتنہ بن گئی اور تم نے ایسے بھی ضرور دیکھے ہوں گے جو غریب ومفلس ہونے کے باوجود دل کے اتنے غنی ہیں کہ کروڑ پتی بھی شاید اتنا غنی نہ ہو لیکن اس کے برعکس بہت سے ایسے کروڑ پتی بھی آپ کو مل جائیں گے جو مفلس و قلاش نظر آئیں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی صحبت اور آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق عمل بھی خاص رحمت الٰہی ہے لیکن اس رحمت الٰہی کی پہچان کس کو ہوگی ؟ ہر کبر اور پیٹو کو تو ہو نہیں سکتی پھر اس طرح آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہ کر وقت گزاریں گے اور دینوی محنت و مشقت کے لئے کم وقت دیں گے تو ظاہر ہے کہ ہر وقت خدمت میں حاضر رہنے والے دنیاوی لحاظ سے مالدار کیسے کہلا سکتے ہیں ؟ کیونکہ مال و دولت کمانے کے لئے جو اصول و طریقہ اللہ نے مقرر کردیا ہے اس میں انہوں نے بہت کم دلچسپی لی ہے اور ان لوگوں کو جب ظاہری مال و دولت کی ریل پیل والے دیکھیں تو وہ اس طرح کے فقرے ہی چست کریں گے کہ ” دیکھو جی یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنے انعام کے لئے ہم میں سے چن لیا ہے ؟ “ یہ وہی بات ہوئی کہ بیٹھ کر نہ اٹھ سکنے والے کو ” پہلون جی “ نان جویں سے محروم لوگوں کو ” سیٹھ جی “ جاہلوں اور ناخواندہ لوگوں کو ” علامہ جی “ کہہ کر ان پر پھبتی کسی جاتی ہے۔ فرمایا کیا ” اللہ بہتر جاننے والا نہیں ہے کہ کون قدر شناس ہیں ؟ “ یعنی جن لوگوں کے اندر شکر گزار ہونے کی استعداد ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ان کو شکر گزاری کی توفیقعطا فرمادی ہے اور جن لوگوں کے اندر شکر گزاری کی صلاحیت نہیں جس کی وجہ سے اللہ ان کو شکر گزاری کی توفیق نہیں دیتا اور ان دونوں گروہوں سے اللہ واقف نہیں ؟ یعنی خوب اور اچھی طرح واقف ہے۔
Top