Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
تم ان لوگوں کو وحی الٰہی سنا کر متنبہ کرو جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور لے جائے جائیں اور اس دن اس کے سوا نہ کوئی مددگار ہوگا نہ سفارشی ، عجب نہیں کہ وہ متقی ہو جائیں
جن لوگوں کی ایمانی استعداد ظاہر ہوجائے ان کی طرف مزید توجہ ضروریات دین میں سے ہے : 79: مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر ‘ آپ ﷺ ان منکروں کو جو ماننے والے نہیں ، چھوڑدو اور ان لوگوں کو وحی الٰہی سنا کر انکار حق کے نتائج سے متنبہ کرو جو آخرت کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور لے جائے جائیں گے اور اس دن اس کے سوا نہ تو کوئی مدد گار ہوگا اور نہ سفارشی ، عجب نہیں کہ وہ متقی ہوجائیں۔ یعنی جو لوگ شقاوت و بدبختی میں اتنے بڑھ چکے ہیں کہ وہ کبھی حق کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے ان کی ہدایت کی سعی میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ زیادہ توجہ کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کی ایمانی استعداد ظاہر ہوچکی ہے یہ لوگ مال و دولت اور عزت واقتدار کے لحاظ سے کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں اگر تربیت یافتہ ہو کر متقی و پرہیز گار ہوگئے تو دعوت حق کے لئے یہی نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ زیر نظر آیت سے یہ سبق حاصل ہوگیا کہ جس دل میں یہ خیال موجود ہو کہ قیامت کے روز کوئی سفارشی اور مدد گار موجود نہیں ہوگا اس دل میں ایمان کی رمق موجود ہے اور وہ یقیناً اصلاح پذیر ہے اور اس کے برعکس جس شخص کا سارا انحصار سفارش پر ہے ، بہت مشکل ہے کہ وہ اصلاح پذیر ہو سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت بہت کم لوگ ایسے تھے جن کے دل میں یہ خیال موجود تھا کہ قیامت کے روز کوئی سفارشی اور مدد گار موجود نہیں ہوگا اور بہت زیادہ لوگ وہ تھے جن کا سارا انحصار سفارش پر تھا۔ اللہ کے نیک بندوں کے یا جو ان کے زعم میں نیک تھے ان لوگوں کے انہوں نے بت بنائے تو مقصد ان کا یہی تھا کہ ان کی پرستش کریں گے تو یہ قیامت کے روز ہماری سفارش کردیں گے۔ وہ فرشتوں اور جنوں کو اللہ کی اولاد اور خصوصاً بیٹیاں قرار دیتے تھے تو اس مقصد کے لئے وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کردیں گے کیونکہ بیٹی کی سفارش ساری سفارشوں سے بڑی سفارش سمجھی جاتی تھی۔ یہ صورت حال اس وقت کی ہے جب نبی اعظم و آخر ﷺ اس دنیا میں موجود تھے اور آج جو ہماری حالت ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ اوپر جو ہم نے عرض کیا ہے کہ ” جس کے دل میں یہ خیال موجود ہو کہ قیامت کے روز کوئی سفارش کرنے والا اور مددگار موجود نہیں ہوگا اس دل میں ایمان کی رمق موجود ہے۔ “ اس کا مطلب یہ نہ سمجھیں کہ ہم سفارش کے قائل ہی نہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ہاں کوئی سفارش نہیں کرے گا۔ مطلب ہمارا یہ ہے کہ اس عقیدہ کی اصلاح کی ضرورت ہے جو ذرا سی توجہ دینے سے اصلاح پذیر ہوجائے گا۔ اس لئے کہ شفاعت کے متعلق اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ ” سفارش و شفاعت کے لئے اللہ کے نزدیک وہی زبان کھولے گا جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور اسی کے متعلق سفارش کرسکے گا جس کی سفارش کرنے کی اجازت ہوگی۔ سفارش قبول کرنے نہ کرنے کا انحصار اللہ کی رضا پر ہوگا وہ چاہے تو قبول کرے گا اور چاہے گا تو نہیں کرے گا۔ 1 : ” کون ہے جو اس کی جناب میں اسکی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟ “ (البقرہ 25 : 255) “ ایک قاعدہ بیان فریادیا کہ ہر شخص کو بارگاہ ذوالجلال میں لب کشائی اور شفاعت کی طاقت نہ ہوگی۔ صرف وہی شفاعت کرے گا جس کو پروردگار عالم نے اذن فرمایا۔ “ (ضیا القرآن) 2 : ” وہ کسی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو۔ “ (الانبیاء 21 : 27) 3 : ” اے پیغمبر اسلام ! تم خواہ ایسے لوگوں کے لئے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ “ (التوبہ 9 : 80) ” اس نے ایک آدمی بھیجا اور عرض کی کہ کفن کے لئے اس قمیص مرحمت فرمائی جائے۔ حضور ﷺ نے اوپر وال قمیض بھیجی۔ اس نے پھر گزارش کی کہ مجھے وہ قمیض چاہیے جو آپ ﷺ کے جسد اطہر کو چھو رہی ہو۔ حضرت عمر ؓ پاس بیٹھے تھے ، عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ اس ناپاک اور گندے کو اپنی قمیض کیوں مرحمت فرماتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے حقیقت سے نقاب اٹھایا اور فرمایا اے عمر ؓ ! اس منافق کو میری قمیض کچھ نفع نہیں پہنچائے گی۔ “ (ضیا القرآن) شفاعت کے متعلق مشرکین کا عقیدہ ہمیشہ یہ رہا ہے اس وقت بھی جب نبی اعظم و آخر ﷺ مبعوث ہوئے ، آپ ﷺ سے پہلے بھی اور آپ ﷺ کے بعد آج تک بھی کہ ” وہ ہماری سفارش کر کے سیدھے جنت میں لے جائیں گے۔ ہم کتنے ہی بدکار کیوں نہ ہوں لیکن ہمارے سفارشی کی سفارش دنیا کی ساری بدکاریوں پر حاوی ہے۔ “ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا کہ : ” اور یہ لوگ (مشرکین مکہ) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ تو انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں نہ فائدہ اور کہتے ہیں یہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں تم کہہ دو کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دینا چاہتے ہو جو خود اسے معلوم نہیں نہ تو آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں ؟ پاک اور بلند ہے اس کی ذات اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “ (یونس 10 : 18) ” کیا انہوں نے اللہ کے سوا اور سفارشی بنا لیے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ اگرچہ یہ سفارشی نہ قدرت ہی رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہی ہوں۔ “ (الزمر 39 : 44) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ تو [ 3 ] سفارش کا اختیار ہی نہیں رکھتے ہاں ! جو حق کی گواہی دیں اور اس کا علم بھی رکھیں۔ “ (الز خرف 43 : 86) اس آیت میں تین قسم کا مفہوم لیا جاسکتا ہے اور اس سے دو اصول سامنے آتے ہیں 1 : یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبودبنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنا والے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو گمراہ وبدراہ تھے وہ تو خو وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔ البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ نہ کہ بےجانے بوجھے حق کی شہادت دی تھی اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں شریک ٹھہرانے والے سفارش کا حق ہی ضائع کر بیٹھے ہوں گے۔ 2 : یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہوگا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کرسکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر نہ کہ غفلت وبے خبری کے ساتھ حق کی شہادت دی ہوگی۔ کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا یا بےسمجھے بوجھے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کی گواہی بھی دیتا تھا اور دوسرے الہوں کی بندگی بھی کرتا تھا۔ 3 : یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبو بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں ؟ تو وہ غلط کہتا ہے یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے جو شخص کسی کے لئے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعوی کرتا ہے وہ اگر علم کی بناء پر اس بات کی مبنی پر حقیقت شہادت دے سکتا ہے توہمت کر کے آگے آئے لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزشن میں نہیں ہے اور یقیناً کوئی نہیں ہے تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر یا محض قیاس ووہم و گمان کی بنیاد پر ایک ایسا عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو ہے اور اس خیالی بھرو سے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے۔ اس آیت سے جو اصول مستنبط ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔ پہلا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا ، چاہئے دنیا میں معتبر ہو ، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے۔ دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہوگا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے۔ دوسرا اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لئے علم شرط ہے گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بےمعنی ہے۔ یہی بات خود نبی اعظم وآخر ﷺ کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : ” انا رایت مثل الشمس فاشھد والا فدع “ اگر تم نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے دے۔ “ (احکام القرآن للجصاص) اس سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ شفاعت پر اللہ کی اجازت کی پابندی کیوں ہے ؟ اس لئے کہ فرشتے ہوں یا انبیاء والیاء کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہ ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ کسی کا ریکارڈ کیسا ہے ، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت وکردار اور کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے ؟ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجہ کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں ؟ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارش سننے لگے تو چار دن میں کیا نتیجہ نکلے گا ؟ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرما نروا سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہوگا اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشو لائیں گے۔ درآنحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامہ اعمال کیسے ہیں ؟ لیکن وہ کون ہے جس کے نامہ اعمال کو اللہ تعالیٰ نہ جانتا ہو اس لئے یہاں جو شفاعت کے متعلق قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح ، معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ اللہ کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہوگا۔ نیک بندے جو دنیا میں خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے انہیں سے آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا مواقع دیاجائے گا لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے پھر جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اس کے حق میں وہ سفارش کرسکیں گے اور سفارش کے لئے بھی شرط یہ ہوگی کہ وہ مناسب اور مبنی بر حق ہو جیسا ایک جگہ ” وقاص صوابا “ کا ارشاد ربانی صاف بتا رہا ہے۔ اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ وہاں بےتکی سفارشیں کرنے کی اجازت نہ ہوگی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں ، ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اٹھ کر سفارش کردیں کہ مولا کریم اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔
Top