Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 47
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ بَغْتَةً اَوْ جَهْرَةً هَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : تم دیکھو تو سہی اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ اللّٰهِ : عذاب اللہ کا بَغْتَةً : اچانک اَوْ جَهْرَةً : یا کھلم کھلا هَلْ : کیا يُهْلَكُ : ہلاک ہوگا اِلَّا : سوائے الْقَوْمُ : لوگ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
ان سے کہو تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر اللہ تم پر اچانک عذاب بھیج دے یا آشکارا آئے تو ظالموں کے گروہ کے سوا کونسا گروہ ہوسکتا ہے جو ہلاک کیا جائے گا ؟
تم ہی بتادو کہ اللہ کا عذاب اچانک آجائے تو ظالموں کے سوا کون ہے جو ہلاک ہوگا ؟ : 73: اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ان سے یہ تو پوچھیں کہ نشانی عذاب کا مطالبہ تو انہوں نے کردیا لیکن اگر اللہ نے عذاب نازل کردیا تو ان میں وہ کون ہے جو اس کو روکے گا ؟ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل کرنے کے دو طریقے اسکی سنت کے مطابق ہیں ایک وہ عذاب جو اچانک نازل ہوجاتا ہے یعنی دفتہً بغیر کسی نوٹس کے بالکل بیخبر ی کے عالم میں بغیر اعلان کئے۔ مطلب یہ ہے کہ عذاب کی خبر فوراً ان کو پہنچائی جا چکی ہوتی ہے لیکن وقت کا اعلان نہیں کیا جاتا اسی عذاب کو قرآن کریم کی زبان میں ” بغۃ “ کہا گیا ہے جس کے معنی اچانک کے ہیں بغیر دن اور وقت مقرر کئے اور دوسری قسم عذاب کی وہ ہے جو باقاعدہ دن اور وقت کا اعلان کرانے کے بعد کھلم کھلا ، دن دھارے ، ڈنکے کی چوٹ پر نازل کیا جاتا ہے۔ اب دونوں قسموں میں سے کسی ایک قسم کا عذاب اگر نازل ہوجائے جیسا کہ ان لوگوں کا مطالبہ ہے تو آخر اس کے روکنے کی کوئی صورت ؟ اچھا کم ازکم یہ تو بتادو کہ یہ بجلی اگر گرے گی تو گرے گی کس پر ؟ انہی ظالموں پر تو گرے گی جو اپنی شامت سے اس کو دعوت دے رہے ہیں اور اپنی بداعمالیوں کے باعث فی الواقع اس کے مستحق بھی ہوچکے ہیں اور عذاب الٰہی کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس کا شکار صرف مجرمین ہوتے ہیں اور فرمانبرداروں کو اس میں سے بچالیا جاتا ہے۔ یہ وہ عذاب ہے جو عذاب کی خبر پہنچانے کے بعد نازل ہو چاہے وقت اور تاریخ مقرر کر کے اور چاہے صرف اطلاع کر کے کہ عذاب الٰہی نازل ہوگا جب کہ اس کا وقت اور دن مقرر نہ کیا جائے۔ زیر نظر آیت میں اس بات کی تعلیم کی جا رہی ہے کہ عذاب کی جو صورت بھی ہو ہلاکت و بربادی تو بہر حال کافروں ہی کے حصے میں آئے گی رہے مؤمن تو جان لینا چاہئے کہ مؤمن کے لئے تو خوشحالی اور بد حالی دونوں یکساں نعمت ہی ہیں۔ خوشحالی کا نعمت ہونا تو معروف ہے بدحالی بھی اسی معنی میں نعمت ہے کہ وہ کفار سیئات یا رفع مراتب کا کام دے گی اور اس عذاب سے مراد وہ عذاب ہے جو انبیاء کی تکذیب کرنے والی امتوں کے لئے مخصوص تھا جو اتمام حجت کے بعد آتا تھا اور اس میں زیادہ تر وہی عذاب مراد ہوتا تھا جو تاریخ اور وقت متعین کر کے دیا جاتا تھا جیسا کہ انبیائے کرام کی سوانح میں ذکر کیا گیا ہے نبی و رسول ﷺ کو اس کے متبعین کو علاقہ بدر کردیا جاتا جو علاقہ عذاب الٰہی کے لئے متعین کردیا جاتا تھا اور جو عذاب کسی حال بھی ٹلنے والا نہ ہوتا تھا اور اس عذاب کو ” جھرۃ “ کے لفظ سے یاد کیا گیا۔ یونس (علیہ السلام) کی قوم سے جو عذاب روک لیا گیا تو اس عذاب کی اطلاع ضرور دی گئی تھی لیکن ابھی دن اور وقت مقرر نہ کیا گیا تھا کہ پوری قوم کے دل دہل گئے اور تضرع و عاجزی کرنے لگے مشیت الٰہی میں جو کچھ ہونا مقرر تھا وہی کچھ ہوا۔
Top