Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 43
فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
فَلَوْلَآ : پھر کیوں نہ اِذْ : جب جَآءَهُمْ : آیا ان پر بَاْسُنَا : ہمارا عذاب تَضَرَّعُوْا : وہ گڑگڑائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : دل ان کے وَزَيَّنَ : آراستہ کر دکھایا لَهُمُ : ان کو الشَّيْطٰنُ : شیطان مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو وہ گڑگڑائے ؟ اس لیے ان کے دل سخت پڑگئے تھے اور جو کچھ وہ بدعملیاں کر رہے تھے انہیں شیطان نے ان کی نظروں میں خوشنما کر دکھایا تھا
لگام ! منہ زوری کا علاج ہے لیکن کچھ اتنے منہ زور ہوتے ہیں کہ لگام بھی توڑ جاتے ہیں : 65: فرمایا جا رہا ہے کہ کچھ ایسے سخت اور بدمزاج بھی ہوتے ہیں کہ ان پر ” عذاب ادنیٰ “ کوئی خاص اثر نہیں کرتا اور وہ اپنی منہ زوری کے باعث یہ لگام توڑ جاتے ہیں اور وہ تضرع و عاجزی کی بجائے مزید اکڑ جاتے ہیں اور اترانے لگتے ہیں ـ حالانکہ سوائے عناد اور قسوت قلب اور خود بینی کے کوئی مانع تضرع و عاجزی ان کے پاس نہ تھا۔ انہوں نے ان تکالیف کو معمولی اور زور مرہ زندگی کے واقعات سمجھ کر ہضم کرلیا تو ہمارے قانون نے ان کو ایک دوسرے امتحان میں مبتلا کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا اور انعامات کی بارش شروع کردی تو وہ اپنی جہالت اور نادانی کے باعث یہ سمجھے کہ انہیں اس وقت جتنی نعمتیں مل رہی ہیں وہ لازماً ان کی اہلیت و قابلیت کی بناء پر مل رہی ہیں اور ان نعمتوں کا ملنا ان کے مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ حالانکہ یہاں جس کو جو کچھ دیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دیا جا رہا ہے اور یہ ان کے دوسرے امتحان کا سامان ہے نہ کہ کسی قابلیت کا انعام ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔ اس طرح یہ دینوی نعمتیں بھی مقبول بارگاہ کی علامت نہیں ہیں۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور بہت سے برے آدمی جن کی قبیح حرکات سے ایک دنیا واقف ہے عیش کر رہے ہیں اور مزے اڑا رہے ہیں۔ اب کیا کوئی صاحب عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بنا سکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور برے انسان کو پسند کرتا ہے ؟ ایسے منہ زوروں اور دوسرے امتحان میں مبتلا لوگوں کا ذکر بھی قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر کیا گیا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہوا : ” اور ہم نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا کیا کہ اس کے باشندوں کو سختیوں اور نقصانوں میں مبتلا کردیا تاکہ سرکشی سے باز آئیں اور عاجزی و نیازمندی کریں۔ پھر ہم نے مصیبت راحت سے بدل دی پھر جب وہ خوب بڑھ گئے اور کہنے لگے ہمارے بزرگوں پر سختی کے دن بھی گزرے ، راحت کے بھی ، تو اچانک ہمارے عذاب کی پکڑ میں آگئے اور وہ بالکل بیخبر تھے۔ “ (الاعراف 7 : 94۔ 95) دوسری جگہ قرآن کریم نے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ وہ ” عذاب ادنیٰ “ میں جب مبتلا کئے گئے تو فوراً آرام کرنے لگے لیکن جبھی نے ہم نے ان کو ” عذاب ادنیٰ “ سے بچاباہر کیا تو پھر وہ ڈینگیں مارنے لگے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور [ 1 ] جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے خواہ کسی حال میں ہو کروٹ پر لیٹا ہو ، بیٹھا ہو ، کھڑا ہو ہمیں پکارنے لگے گا لیکن جب ہم اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو پھر اسی طرح چل دیتا ہے گویا رنج و مصیبت میں کبھی اس نے ہمیں پکارا ہی نہیں تھا تو دیکھو ! جو حد سے گزر گئے ہیں ان کے کام خوشنما کردیئے گئے ہیں۔ “ (یونس 10 : 12) ایک جگہ فرمایا : ” اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہو کر اس کو پکارنے لگتے ہیں اور جب وہ اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ تاکہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس کی ناشکری کریں ، پس (اے کافرو ! ) مزے اڑا لو پھر تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا۔ “ (الروم 30 : 33۔ 34) ان کی بدعملیوں کو شیطان نے جب خوشنما کر دکھایا تو وہ مزید اترانے لگے : 66: زیر نظر آیت کو دو حصوں میں بیان کیا گیا اور دوسرا حصہ پہلے حصہ کی مزید تشریح کر رہا ہے۔ پہلے حصہ میں انسان کی جہالت و حماقت اور اس کی ناشکری و نمک حرامی پر گرفت تھی اور اس آیت کے دوسرے حصے میں اس کی کم ظرفی اور ہو شیاری پر گرفت کی گئی ہے کہ اس کم بخت کو جب دنیا میں کچھ دولت ، طاقت ، عزت اور وافر فراوانی نصیب ہوجاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ اس کا کام خوب چل رہا ہے تو اسے یاد نہیں رہتا کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے ہی کچھ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو مجھے وہ کچھ میسر ہوا جس سے دوسرے محروم ہیں۔ اس غلط فہمی میں فخر و غرور کا نشہ اس پر ایسا چڑھتا ہے کہ پھر یہ نہ اللہ تعالیٰ کو خاطر میں لاتا ہے ، نہ اللہ کی مخلوق کو لیکن جو نہی کہ اقبال نے پھر منہ موڑا اس کی ہمت جواب دینے لگتی ہے اور پھر کیا ہوتا ہے کہ بدنصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پر دل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کردیتی ہے جس میں یہ ہر ذلیل حرکت کر گرزتا ہے اور یہی مضمون آگے مزید جاری ہے۔
Top