Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 41
بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
بَلْ : بلکہ اِيَّاهُ : اسی کو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو فَيَكْشِفُ : پس کھول دیتا ہے (دور کردیتا ہے) مَا تَدْعُوْنَ : جسے پکارتے ہو اِلَيْهِ : اس کے لیے اِنْ : اگر شَآءَ : وہ چاہے وَتَنْسَوْنَ : اور تم بھول جاتے ہو مَا : جو۔ جس تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
نہیں ، اس کو پکارو گے اور اگر وہ چاہے گا تو تمہاری مصیبت دور کر دے گا اور اس وقت بھول جاؤ گے جو کچھ تم شرک کرتے رہے تھے
غیروں کو بھول کر اس وقت تم صرف اسی کو پکارو گے اور وہ معاف فرمادے گا اگر چاہے گا : 63: زندگی میں یقیناً ایسے مشکل اوقات بھی آجاتے ہیں کہ انسان کی اصل فطرت اگرچہ وہ کتنی ہی مسخ کیوں نہ ہوچکی ہو جاگ جاتی ہے اور اصل فطرت میں چونکہ ایک ہی خدا کی شہادت موجود ہے دوسرے حاجت روا اور مشکل کشا اور سفارشی جن کو وہ مانتا ہے ان کی کوئی شہادت اس کی فطرت کے باطن میں موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ محض خیال ہوتے ہیں اس وجہ سے جب اس کی زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ آجاتا ہے جو اصل آزمائش کا ہوتا ہے تو انسان اپنے تمام فرضی سہاروں کو بھول جاتا ہے۔ وہ وقت ہے کہ صرف اسی کو پکارتا ہے جس کی شہادت وہ اپنی فطرت میں پاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو نہایت دلاویز تمثیلوں اور نہایت ہی حقیقت افروز دلائل سے واضح کیا ہے جیسا کہ آپ پیچھے پڑھتے آرہے ہیں اور آگے بھی انکا بیان آئے گا۔ فرمایا ” بل ایاہ تدعون “ نہیں ، تم صرف اسی کو پکارو گے اور اگر وہ چاہے گا تو تمہاری مصیبت دو رکردے گا اور اسوقت بھول جاؤ گے جو کچھ تم شرک کرتے رہے تھے۔ “ ظاہر ہے کہ پکارنے سے مراد اپنی حاجتوں میں مدد کے لئے پکارنا ہے اور یہی وہ پکارنا ہے جو عین فطرت کے مطابق ہے۔ ایک جگہ قرآن کریم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا : ” اسی کا پکارنا ہی سچا پکارنا ہے جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ پکارنے والے کی کچھ نہیں سنتے ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے کہ بس پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں اور منکرین حق کی پکار اس کے سوا کچھ نہیں کہ ٹیڑھے راستوں میں بھٹکتے پھرنا ہے۔ “ (الرعد 13 : 14) ” اور وہ دن جب اللہ فرمائے گا جن ہستیوں کو تم سمجھتے تھے کہ وہ میرے ساتھ شریک ہیں اب انہیں بلاؤ ، وہ پکاریں گے مگر کچھ جواب نہیں پائیں گے ، ہم نے ان دونوں کے درمیان آڑ کردی ہے۔ “ (الکہف : 18 : 52) ایک جگہ ارشاد فرمایا : غور کیجئے کہ جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے قرآن کریم نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے موثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے وہ سب کے سب بہترین انداز میں یہاں اختیار کئے جا چکے ہیں۔ اب وہ کیا چیز ہے جو انہیں قبول حق میں مانع ہورہی ہے ؟ صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے اور یہی ان کی ضد ہے اور ضدی آدمی کبھی جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہوتے ؟ ایک بار نہیں سو بار یہ بات دیکھنے میں آچکی ہے کہ دنیا کی چھوٹی مصیبتوں میں بعض انسان جب پھنستے ہیں تو ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ درباروں اور خانقاہوں پر سلامی دینے ، منت چڑھاوا چڑھانے ، پیرجی کے نامکا چھترا ، بکرا دینے اور شیرینیاں پیش کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن جب کوئی بڑی مصیبت جیسے ” موت “ وغیرہ سر پر کھڑی ہوتی ہے تو کوئی کام بھی ان کو یاد نہیں رہتا اس گمراہی کا اس آیت میں ذکر کیا گیا فرمایا ” تم ان سب کو بھول بھال جاتے ہو جنہیں تم شریک ٹھہراتے رہے۔ “
Top