Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر غور کیا کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر آجائے یا آنے والی گھڑی سامنے آ کھڑی ہو تو اس وقت بھی تم اللہ کے سوا دوسروں کو پکارو گے ؟ اگر تم سچے ہو
جب اللہ کا عذاب تم کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو کیا اس وقت بھی تم غیر اللہ کو پکارو گے ؟ : 62: لفظ ” اَرَءَیْتَكُمْ ‘ ‘ پر مفسرین نے بہت کچھ تحریر کیا ہے۔ لفظ کی ترکیب پر بھی اور اس کے معانی پر بھی۔ اپنا خیال یہ ہے کہ اَرَءَیْتَكُمْ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ” ارایتم “ ہے جیسا کہ آگے چل کر اس سورت کی آیت 46 میں آرہا ہے فرمایا ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر آجائے یا آنے والی گھڑی یعنی موت سامنے آگھڑی تو اس وقت بھی تم اللہ کے سوا دوسروں کو پکارو گے ؟ “ جس کو استفہام انکاری کے نام سے پکارا جاتا ہے یعنی یقیناً ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ان دونوں نازل ترین وقتوں میں تم غیر اللہ کو پکارو۔ کیوں ؟ اس لئے کہ مکہ والوں کے شرک کی تشریح آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں ان کے خیال میں آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ، بارش بھیجنے والا اور مشکلات کو دور کرنے والا ، رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ ہی تھا۔ اس لئے ان کو اس طریقہ سے مخاطب کیا گیا وہ جن بتوں اور دیوی دیوتاؤں کی کو رنش بجا لاتے تھے اور جنہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارتے اور سورتے تھے اور جن کے متعلق ان کا گمان تھا کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں اور ان کی سفارش اللہ تعالیٰ نہیں موڑتا۔ فرمایا ایسے مشکل وقت میں جب تم کو موت نے آگھیرا ہو یا کسی دوسری مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہو تو اسوقت تمہارے وہ مددگار اور حاجت روا اور سفارش کرنے والے کہاں چلے جاتے ہیں تم ان کو بلا کیوں نہیں لیتے۔ ایسے مشکل اوقات میں تو تم بھی اللہ ہی کو پکارتے ہو۔ اگر تم غیر اللہ کی نذر و نیاز اور غیر اللہ کے نام کے وظیفے اور غیر اللہ کی منت وچڑھا وا دینے میں سچے ہو تو پھر ایسے اوقات میں بھی انہی کو پکار دیکھو ؟ نہیں توسیدھے طریقے سے مان جاؤ اور اس شرک سے گلو خلاصی کر الو ورنہ وہ وقت آنے والا ہے جب اس شرک کی پاداش میں پکڑ لئے جاؤ گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے مشرکوں کا شرک اس وقت کے مشرکوں سے بہت زیادہ قویٰ اور مضبوط ہے اس لئے کہ اس وقت کے مشرک سخت ترین مشکلات میں گھر جاتے تو کم از کم ایسے اوقات میں غیر اللہ کو نہیں پکارتے تھے اور اس بات پر قرآن کریم کی شہادتیں موجود ہیں۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی خشکی اور تری میں سیر و گردش کا سامان کردیا ہے پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تم جہازوں میں سوار ہوتے ہو ، جہاز موافق ہوا پا کر تمہیں لے اڑتے ہیں مسافر خوش ہوتے ہیں کہ اچانک ہوائے تند کے جھونکے نمودار ہوجاتے ہیں اور ہر طرح سے موجیں ہجوم کرنے لگتی ہیں اور مسافر خیال کرتے ہیں بس اب ان میں گھر گئے تو اس وقت وہ دین کے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ اے اللہ ! اگر اس حالت سے ہمیں نجات دے دے تو ہم ضرور تیرے شکرگزار ہوں گے۔ “ (یونس 10 : 22) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” پھر جب یہ (لوگ) کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ پر خالص اعتقاد رکھ کر اسے پکارتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ ان کو (طوفان سے) نجات دے کر خشکی میں پہنچا دیتا ہے تو ذرا دیر لگائے بغیر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس کی ناشکری کریں اور زمین میں فائدہ اٹھاتے رہیں پس عنقریب یہ (لوگ) جان لیں گے۔ “ (العنکبوت 29 : 65۔ 66) ” اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہو کر اس کو پکارنے لگتے ہیں اور جب وہ اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ تاکہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس کی ناشکری کریں ، پس (اے کافرو ! ) مزے اڑا لو پھر تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا۔ “ (الروم 30 : 33 ، 34) ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور جب کبھی ان پر سمندر کی لہریں سائے کی طرح چھا [ 2 ] جاتی ہیں تو وہ محض اللہ کے ہو کر اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب اللہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے بعض اعتدال پر رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں سے وہی منکر ہوتے ہیں جو عہد پر قائم نہ رہنے والے احسان فراموش ہیں۔ “ (لقمان 31 : 32) یہ تو اس وقت کے مشرکین کا حال تھا اور آج کے بعض علماء ، مقتدا اور پیشوا کہلانے والوں کا جو حال ہے اس کو بھی ملاحظہ کرلیں۔ تحریر ہے کہ : ” اولیاء سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ تو سل کرنا امر مشروع اور شے مرغوب ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا دشمن انصاف “۔ (رسالہ حیات الموات ازاحمد رضا خاں بریلوں ص 29) ” انبیاء ومرسلین اولیاء و علماء صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت واستمداد جائز ہے۔ اولیاء بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔ “ (رسالہ حیات الموات از احمد رضاخاں بریلوی درج فتویٰ رضویہ ج ، 4 ص 300) ” حضور ہی ہر مصیبت میں کام آتے ہیںحضور ﷺ ہی بہتر عطا کرنے والے ہیں۔ عاجزی وتذلل کے ساتھ حضور کو ندا کرے۔ حضور ہی ہر بلا سے پناہ ہیں۔ “ (الامن والعلی ازاحمد رضا خاں صاحب بریلوی ص 10) ” جبرئیل (علیہ السلام) حاجت روا ہیں پھر حضور اقدس ﷺ کو حاجت روا ، مشکل کشا ، دافع البلاء ماننے میں کس کو تامل ہو سکتا ہے وہ تو جبرئیل (علیہ السلام) کے بھی حاجت روا ہیں۔ “ (ملفوعات ص 99 طبع لاہور) ” پکار علی مرتضیٰ کو کہ مظہر عجائب ہیں تو انہیں مدد گار پائے گا۔ مصیبتوں میں سب پریشانی و غم اب دور ہوجائیں گے حضور کی ولایت سے یا علی یا علی۔ “ (الامن والعلی ازا حمد رضا خاں صاحب بریلوی ص 10) ” میں نے جب بھی مدد طلب کی یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (حضرت محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا بلکہ زبان سے یا غوث ہی نکلا۔ “ (مدائن بخشش ص 186) پہلے چار حوالے قرآن کریم کی آیات کے ہیں جن کا حوالہ بھی ساتھ درج ہے اور نیچے کے پانچ حوالے بعض ” علمائے اسلام و پیشوایان دین ‘ ‘ کے ہیں جن کا حوالہ بھی ان کی کتب کے نام وصفحہ نمبر کے ساتھ درج کردیا۔ غور سے پڑھ کر فیصلہ خود فرما لیں کہ یہ جو تم نے بیان کیا ہے کہ ان مشرکین کا شرک ہلکا اور نرم تھا لیکن آج کا شرک ان سے بھاری اور ٹھوس قسم کا ہے کہاں تک صحیح ہے ؟
Top