Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 34
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا١ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ
وَلَقَدْ كُذِّبَتْ : اور البتہ جھٹلائے گئے رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَصَبَرُوْا : پس صبر کیا انہوں نے عَلٰي : پر مَا كُذِّبُوْا : جو وہ جھٹلائے گئے وَاُوْذُوْا : اور ستائے گئے حَتّٰى : یہانتک کہ اَتٰىهُمْ : ان پر آگئی نَصْرُنَا : ہماری مدد وَلَا مُبَدِّلَ : نہیں بدلنے والا لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی باتوں کو وَ : اور لَقَدْ : البتہ جَآءَكَ : آپ کے پاس پہنچی مِنْ : سے (کچھ) نَّبَاِى : خبر الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور دیکھو یہ واقعہ ہے کہ تم سے پہلے بھی اللہ کے رسول جھٹلائے گئے سو انہوں نے لوگوں کے جھٹلانے اور دکھ دینے پر صبر کیا یہاں تک کہ ہماری مدد آپہنچی اور کوئی نہیں جو اس کی باتوں کو بدل دینے والا ہو اور رسولوں کی خبروں میں بہت سی چیزیں تو تم تک پہنچ ہی چکی ہیں
آپ ﷺ سے پہلے جھٹلائے گئے رسولوں کی ہم نے مدد کی تو آپ ﷺ کی کیوں نہیں کریں گے ؟ : 52: فرمایا کہ ہمارے اصول و قانون تواتنے پختہ ہیں کہ وہ کبھی نہیں بدلا کرتے۔ نہ ہم بدلتے ہیں اور نہ کسی ہیکڑ کو بدلنے دیتے ہیں ۔ ہمارا اصول اس معاملہ میں ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہمارے بھیجے گیوں کو جب جھٹلایا گیا تو ہم نے ان کے صبر کو آزمایا اور ابھی ان کے صبر کا پیالہ لبریز نہیں ہوا تھا کہ ہماری مدد آپہنچی ہے۔ یاد رہے کہ سنت اللہ یہی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش جاری رہے۔ مصائب کے پہاڑ حق کے علمبرداروں پر ٹوٹتے رہیں اور وہ صبر واولوالعزمی سے ان کو برداشت کرتے رہیں ۔ حوادثات کے طوفان میں بھی شمع توحید کو ہر وقت وہ روشن رکھیں۔ بلاشبہ آپ ﷺ کو بھی کفار کے کفر وعناد سے بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ آپ ﷺ کو رحمت اللعالمین ہونے کے باعث یہ بات گوارا بھی نہیں کہ لوگ کفر و گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے پھریں لیکن اللہ کا قانون اپنی جگہ اتنااٹل ہے کہ اس کو بدلا نہیں جائے گا۔ بس آپ ﷺ بھی کفار کی اذیت رسانیوں پر صبر و تحمل ہی سے کام لیں جیسے آپ ﷺ سے پہلے انبیائے کرام نے اپنے اپنے وقتوں میں صبر و تحمل سے کام لیا کفار نے ان کو ستانے میں بھی کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ وقت آنے پر جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا آپ ﷺ کی مدد بھی کی جائے گی اور آپ ﷺ کے مخالفین کو ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ دیکھو آپ ﷺ سے پہلے انبیائے کرام نے جب تبلیغ اور صبر کا حق ادا کردیا اور کفار کی اذیت رسانیوں اور تعصب کی حد ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے وعدہ کے پورا ہونے سے نہ روک سکا اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ بھی ہمارا وعدہ ہے کہ آپ ﷺ کو کامیاب اور آپ (علیہ السلام) کے مخالفین کو ذلیل کرنا ہے اور یہ وعدہ بھی یقیناً پورا ہو کر رہے گا اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ جب اس وعدہ کے پورے ہونے کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ کی کامیابی کو کتنی دیر لگی ؟ کچھ بھی نہیں کہ گنتی کے چند سالوں میں پورا ملک عرب تہ وبالا کر کے رکھ دیا گیا اور لوگوں نے اسلام کے دامن میں ٹڈی دل کی طرح داخل ہو کر پناہ لی اور مخالفین و معاندین ہوا ہوگئے اور آج بھی نصرت الٰہی کا وعدہ سچے مسلمانوں کے ساتھ قرآن کریم کے صفحات میں موجود ہے بشرطیکہ مسلمان بھی سچے مسلمان بن کر صبر و آزمائش کی گھڑیوں میں پورا اترنے کی کوشش کریں۔ اس وقت حالت بلاشبہ دگرگوں ہے لیکن ہمارا ایمان ہے کہ وہ وقت یقیناً آئے گا اگرچہ ہمیں معلوم نہیں تاہم وہ علم الٰہی میں موجود ہے اور وہی جانتا ہے کہ اس کی شرطوں کو پورا کرنے والے کب پورا کریں گے کہ موعود نصرت ان کو پہنچ جائے۔ اللہ کی باتوں کو کوئی نہیں بدل سکتا اور انبیائے کرام کی خبریں آپ ﷺ بھی سن چکے : 53: ” لا مبدل لکلمب اللہ “ اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ کلمہ کیا ہے ؟ بچے بھی اس کو سمجھتے ہیں اور خصوصاً جب اسلامی مدارس میں کسی بچہ کو داخل کیا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ میں صرف کا کوئی قاعدہ دیا جاتا ہے تو پہلی چیز جو اس کو بتائی جاتی ہے وہ یہی ” کلمہ “ ہے اور مدرس بچے سے یوں گویا ہوتا ہے کہ ” جب ہم کوئی بات کہتے ہیں تو اس میں کئی لفظ ہوتے ہیں کبھی زیادہ کبھی کم مثلاً ” ذھب حامد الی المسجد “ اس میں چار لفظ ہیں ذھب ، حامد ، الی ، المسجد۔ ان میں سے ہر ایک کے ایک معنی ہیں بس عربی قواعد میں اس کو ” کلمہ “ کہتے ہیں۔ اسی طرح ” کلمت اللہ “ وہ باتیں ہوں گی جو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی (علیہ السلام) کے ذریعے سے لوگوں کو بتائیں اور لوگ بھی ان کے معنی سمجھ گئے یا کم از کم یہ کہ ان کے معنی ہوں ” مبدل “ وہ بات جو بدلی جاسکے اور ” لا مبدل “ وہ بات جو بدلی نہ جائے۔ کلمت جمع ہے کلمہ کی یعنی باتیں ۔ پورے فقرہ کا مطلب ہوا کہ ” اللہ کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا “ یا ” اللہ اپنی باتوں کو نہیں بدلتا “ پہلا ترجمہ تو ساری دنیا کے لوگ کرتے ہیں اور دوسرے معنی ” اللہ اپنی باتوں کو نہیں بدلتا “ کئے جائیں تو ان سب لوگوں کے سردرد شروع ہوجاتی ہے کہ یہ معنی تو آج تک کسی نے نہیں کئے اور یہ بھی کہ پہلے معنوں میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ کی باتوں کو کوئی نہیں بدل سکتا لیکن وہ آپ اپنی باتوں کو جب چاہے بدل دے اور دوسرے معنوں سے یہ بات واضح نہیں ہوتی اور پھر اس پر یوں قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر اللہ بھی اپنی باتوں کو نہ بدلے تو پھر وہ اللہ کا ہے کو ہوا اور اسکا قادر ہونا کدھر گیا اس کا مطلب تو صاف یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ایسے معنی کرنے والا کوئی نیچری ہوگا یا کوئی دہریہ ہوگا جو خدا کو نہیں مانتا پھر اس کو خیال آئے کہ ” معتزلہ “ بھی اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں اور ران کا بڑا پیر ہمارے ملک میں ” سرسید احمد خاں “ تھا ۔ بس یہاں پہنچے گا تو اس وقت تک وہ غصہ سے بھر چکا ہوگا۔ دانت پیسے گا۔ دانت پیسے گا اور گلے کو صاف کرتے ہوئے دو چار گالیاں تابڑ توڑ سنا دے گا اور اگر اس سے کوئی یہ پوچھے کہ حضرت والا ! ” اللہ اپنی باتوں کو نہیں بدلتا “ کی عربی کیا ہے تو بڑبڑا کر اس کو یہی جواب دے پائے گا کہ یہ فقرہ تجھ کو کسی دہریئے نے بتایا ہے ۔ دیکھ تو کہاں بیٹھ کے آگیا توبہ کر یہ توکلمہ کفر ہے جو تیرے منہ سے نکل گیا ” لاحول “ پڑھ تاکہ شیطان مردود تیرے سے دور ہوجائے تو نے یہ کیسی بات کہہ دی ۔ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ اللہ کے کلمات گنے نہیں جاسکتے یہ کون ہیں اللہ کے سارے کلمات کو جاننے والے اللہ کے منکر ، اللہ کے رسول کے منکر للہ کی کتاب کے منکر۔ مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اے میرے رسول ! ﷺ تمام رسولوں کی سرگز شتیں اس سنت اللہ پر شاہد ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول کو آزمائشوں میں مبتلا کیا اور ہر نبی کی آزمائش کے بعد ہی اس نے اسکی مدد کی اس لئے کہ اللہ نے سارے انبیاء کرام کو یہ بات بتائی کہ انجام کار کامیابی تمہارے قدم چومے گی اور آپ ﷺ کو کتنے ہی نبیوں کی سرگذشتوں کا کچھ حصہ بنایا بھی گیا جس سے تم پر اس حقیقت کو واضح کرنا مقصود تھا کہ جس طرح کے حالات سے انہیں گزرنا پڑا ہے اسی طرح کے حالات سے تمہیں بھی گزرنا ہوگا اور جس طرح ان کی مدد کی گئی اسی طرح آپ ﷺ کی بھی مدد کی جائے گی۔ میرے باتیں بدلا نہیں کرتیں اس لئے کہ میں نے کبھی ایسی بات کی ہی نہیں جس کو بعد میں بدلنا پڑے اور یہی بات میرے قادرو مطلق ہونے کی دلیل ہے جو اپنی بات کو ادل بدل کرے وہ کمزور ہوتا ہے یہ طاقتور ہونے کی نشانی نہیں۔ ان لوگوں کی عقل میں فتور ہے اس لئے وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے وہ قادر مطلق کو دنیا کے ان بادشاہوں کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جن کے ہاں حق ناحق ، جائز ناجائز ، حلال و حرام اور صحیح و غلط کی کوئی تمیز نہیں اور یہ ان سے اتنے خوف زدہ ہیں کہ محض انکی ان بداعتدالیوں کی وجہ سے مطلق العنان بادشاہ کا لقب دیتے ہیں اور ان کے ناموں کو عبادت الٰہی میں ” ظل اللہ “ کہہ کر شریک کرلیتے ہیں ” لکلمتہ “ کا لفظ آگے اسی سورة کی آیت 115 میں آرہا ہے مزید تفصیل کے لئے وہاں سے ملاحظہ کریں :
Top