Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 30
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ١ؕ قَالَ اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَا١ؕ قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب وہ کھڑے کئے جائیں گے عَلٰي : پر (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب قَالَ : وہ فرمائے گا اَلَيْسَ : کیا نہیں هٰذَا : یہ بِالْحَقِّ : سچ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : ہاں وَرَبِّنَا : قسم ہمارے رب کی قَالَ : وہ فرمائے گا فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس لیے کہ كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور تو تعجب کرے ! اگر انہیں اس حالت میں دیکھے جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت اللہ ان سے پوچھے گا کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ یہ کہیں گے ہاں ! ہمیں اپنے پروردگار کی قسم ، اس پر اللہ فرمائے گا تم جو انکار کرتے رہے ہو تو اب اس کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھ لو
ان کی حالت دیدنی ہوگی جب وہ اس دن رب جبار کے سامنے کھڑے ہوں گے : 45: قرآن کریم کے بیان کردہ بنیادی اصول تین ہیں توحید ، رسالت اور آخرت میں دوبارہ زندہ ہونے کا یقین ۔ باقی سارے عقائد انہی بنیادی اصولوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس دنیا کے باسیوں کو سب سے زیادہ تعجب اس تیسرے اصول پر ہوتا ہے کہ یہ دوبارہ جی اٹھنا کیا ہے ؟ ان کو کم ہی یقین آتا ہے کہ یہ بات صحیح ہے ۔ جو لوگ زبان سے اس کے اقراری ہیں وہ بھی صرف زبان کے اقرار تک ہی اس کو سمجھتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ الاماشاء اللہ۔ اور یہی تیسرا اصول وہ ہے جو انسان کو اس کی اپنی حقیقت اور مقصد زندگی سے روشناس کر کے اس کی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے اور اس کو ایک سیدھی اور صاف راہ پر کھڑا کردیتا ہے کیونکہ اس میں جزاء و سزاء کا یقین انسان کے ہر عمل کا رخ ایک خاص طرف پھیر دیتا ہے اور پھر جب پہلے دونوں اصول بھی اس تیسرے اصول کے ساتھ ممد ومعاون ہوتے ہیں اسلئے کہ یہ اس پہلے اصول کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں توتینون اصول انسان کو اس صحیح راستہ پر گامزن کردیتے ہیں پھر اس طرح وہ زندگی کی صحیح لائن پر رواں دواں ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ان تینوں پر اور خصوصاً عقیدہ آخرت پر کم ہی لوگوں کو یقین حاصل ہوتا ہے اور دنیا کے بڑے لوگوں کو تو بہت ہی کم یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام کے مخالفین و معاندین بھی یہی لوگ ہوئے ہیں اور آج بھی انہی لوگوں کے باعث سارا بگاڑ ہے۔ فرمایا ” تو تعجب کرے ! اگر انہیں اس حالت میں دیکھے جب یہ اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے یالا کھڑے کئے جائیں گے اور وہ ان سے پوچھے گا کہ کیا یہ دن حققت نہیں ہے ۔ “ جب کہ ان کی کج روی اور غلطی کاری کے لئے سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انہیں قیامت ، جزاء و سزاء اور جنت دوزخ پر یقین ہی نہ تھا۔ ان کا خیال تو بڑا پختہ تھا کہ زندگی بس یہی دنیاوی زندگی ہے اور اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں جس میں اپنے اعمال کے نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا وہ اس انہماک میں تھے کہ اچانک انکی آنکھیں بند ہوگئیں اور پھر جب دوبارہ آنکھیں کھلیں تو انہوں نے اپنے آپ کو اس خاص دن کی ہولنا کیوں میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا پایا تو کیا وہ حالت ان کی دیدنی نہیں ہوگی ؟ کیوں نہیں ان کی دنیا اندھیر ہوگئی اور جس چیز کا ان کو مطلق یقین نہیں تھا اس سے وہ دو چار ہوگئے اور ایسی حالت میں جب ایک دم ان پر یہ سوال کیا جائے گا کہ اب بتاؤ قیامت برپا ہونے کی خبر صحیح تھی یا نہیں ؟ سچ بتاؤ کیا وہ ہو اس باختہ نہیں ہوں گے ؟ وہ سراسیمگی کی حالت میں سنبھل کر جواب دیں گے ہاں ! رب کریم کی قسم : 46: ایک مدت تک جس چیز کا یقین نہ آیا جب کہ اس کی یقین دہانی کرانے والوں نے اپنی ساری کوشش کی کہ ان کے کانوں میں یہ بات ڈالنے کی ہر ممکن سعی کی۔ ان کو انفرادی طور پر سمجھایا ، انکی مجلسوں میں جا جا کر انکی تفہیم کرائی لیکن یہ سب کچھ بےنتیجہ رہا لیکن جب آنکھیں بند ہو کر کھلیں اور ان سے سوال کیا ہی گیا تھا کہ وہ بول اٹھے ہاں ! رب کریم کی قسم یہ تو ایک امر واقعہ ہے غور کرو کہ حالات بدلے تو انکی ساری حالت بھی ساتھ ہی بدل گئی کہ نہیں ؟ لیکن ان کی اس بدلی ہوئی حالت نے انکو کوئی فائدہ دیا ؟ حکم ہوگا پھر اب اس دن کے انکار کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو اور تمہاری اس ہاں کا تم کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا اس لئے کہ دار الجزاء ہے دارا لعمل نہیں۔
Top