Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
تو اس وقت وہ اس کے سوا کوئی شرارت نہیں کرسکیں گے کہ کہیں اللہ کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شرک کرنے والے نہ تھے
مشرکین کی اس شررات کا بیان جو اتنے نازک وقت میں بھی وہ کرنے سے باز نہیں آئیں گے : 36: برتن سے وہی نکلے گا جو اس میں ڈالا گیا۔ یہی حالت ان مشرکین کی ہوگی جو میدان حشر میں اکٹھے کئے جائیں گے فرمایا پہلے تو ان پر قیامت کا روز ہی اتنا بھاری تھا گویا ہزاروں سال بیت گئے اور یہ لوگ تمنا کرنے لگے کہ کسی طرح حساب جلد ہوجائے انجام کچھ بھی ہو یہ تذبذب اور تردد کی تکلیف تو رفع ہو ۔ پھر جب امتحان شروع ہوگا اور انکو کہا جائے گا فوراً ان شریکوں کو بلاؤ جن کے آسروں اور وسیلوں پر تم جیا کرتے تھے اور جن کے متعلق تمہارا گمان تھا کہ یہ لوگ ہم کو میدان حشر کی سختیوں سے بچا لیں گے توا سوقت وہ دائیں بائیں دیکھیں گے لیکن جب کچھ نظر نہیں آئے گا تو ایسے نازک وقت میں بھی انکو ایک شرارت سوجھے گی اور فوراً بھول اٹھیں گے ” کہ اللہ کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم تو شرک کرنے والے ہی نہ تھے۔ “ ان کے اس جواب کو قرآن کریم میں ” لم تکن فتنتھم “ کے الفاظ سے بیان کیا ہے اور ” فتنہ “ کا لفظ امتحان اور آزمائش کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور کسی پر ” فریضتہ ومفتون “ ہوجانے کے لئے بھی۔ اس جگہ دونوں ہی معنی مراد لئے جاسکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ پہلی صورت میں اس امتحان کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا اور دوسری صورت میں مراد یہ ہوگی کہ یہ لوگ دنیا میں ان بزرگوں کو جن کے انہوں نے بت بنا رکھے تھے اور خود ساختہ معبودوں پر مفتون تھے اپنے جان و مال ان پر قربان کرتے تھے مگر آج وہ ساری محبت وفریفتگی کا فور ہوگئی اور انکا جواب سوائے اس کے کچھ نہ ہوا کہ ان سے برات اور علیحدگی کا دعویٰ کریں کہ حاشاء اللہ ہم نے تو ان کو کبھی پکارا ہی نہ تھا اور ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا ہی نہ تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ان کے اس جواب پر ایک بار پھر نظر ڈالو کہ میدان حشر کے ہولناک منظر اور رب الارباب کی قدرت کاملہ کے عجیب و غریب واقعات دیکھنے کے بعد ان کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہو کر جھوٹ بولیں اور وہ بھی اس شدومد کے ساتھ کہ اس کی ذات کبریائی کی قسم کھا کر کہہ دیں کہ ” اللہ کی قسم ہم تو مشرک نہیں تھے۔ “ مفسرین نے ان کے اس جواب پر بہت قیاس آرائیاں کی ہیں کسی نے کہا کہ ان کا یہ جواب عقل و ہوش پر مبنی نہیں ہوگا بلکہ فرط ہیبت سے بوکھلا ہٹ کی بناء پر ہوگا کہ ایسی حالت میں انسان کے جو کچھ منہ میں آئے وہ کہہ جاتا ہے اور بعض نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پوری کیفیت وحالت کو سامنے لانے کے لئے انکو یہ قدرت دے دی کہ وہ آزادانہ جو چاہیں کہیں تاکہ ان کا شرک بھی اہل حشر کے سامنے کھل جائے اور سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ جھوٹ بولنے میں بھی یکتائے روز گار ہیں اور اس چیز کو ہم نے اس مختصر فقرہ میں ادا کیا ہے کہ ” برتن سے وہی نکلے گا جو اس میں ڈالا گیا۔ “ اور یہ کہ ” عادت کا بدلنا محالات میں سے ہے ” جھوٹ ان کی گٹھی میں داخل تھا وہ دنیا میں جھوٹ بولنے میں بےشرم تھے اور آخرت میں بھی وہ ایسے ہی نکلے۔ پھر انکے اس جھوٹ کو کھول کر سامنے رکھ دینے کا ذکر بھی قرآن کریم میں دوسری جگہ موجود ہے جب اس کا بیان آئے گا تو ان شاء اللہ عرض کریں گے۔ بعض مفسرین نے اس کو اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ ” جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے شرک سے انکار کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو کھلے طور پر کسی مخلوق کو اللہ یا اللہ کا نائب نہیں کہتے تھے مگر ان کا عمل یہ تھا کہ خدائی کے سارے اختیارات مخلوق کو بانٹ رکھے تھے اور انہی سے اپنی حاجتیں مانگتے اور انہی کے نام کی نذر و نیاز دیتے تھے۔ انہی سے روزی و تندرستی ، اولاد اور دوسری ساری مرادیں مانگا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اپنے آپ کو مشرک نہ سمجھتے تھے اسی لئے میدان حشر میں بھی قسمیں کھا کر یہی کہیں گے کہ ہم مشرک نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی کو ایک اور طریقہ سے واضح فرمائیں گے۔ “ (بحر محیط ، ترجمہ) زیر نظر آیت پر ایک سوال اور اس کا جواب : آیت زیر نظر میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے کلام کرے گا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے رہے اور کلام کی تفصیل بھی بیان کی گئی حالانکہ قرآن کریم کے کتنے مقامات پر یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ ” لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ “ (البقرہ 25 : 174) یعنی ان لوگوں مشرکوں اور کافروں سے اللہ قیامت کے روز کلام نہیں کرے گا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہی بات ہم نے اصول تفسیر میں عرض کردی تھی کہ قرآن کریم اس زبان میں نازل ہوا ہے جس میں انسان ایک دوسرے سے عام کلام کرتے ہیں اور اسی انداز سے قرآن کریم کی تفہیم ممکن ہے ہماری زبان میں یہ کلمہ عام بولا جاتا ہے کہ ” میں ان سے بات کرسکتا ہوں “ میں ان سے بات نہیں کرسکتا “ اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس بات کرنے سے کیا مطلب ہے اور بات نہ کرنے کے کیا معنی ہیں۔ یہی مفہوم اس جگہ سمجھنا چاہئے جہاں کلام نہ کرنے کا بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا یعنی ان سے کلام بطور اعزاز یا قبولیت دعا اور ان کی قدر ومنزلت کے نہیں ہوگا۔ “ چناچہ سورة البقرہ 2 : 147 میں اس کی قرآن کریم نے خود وضاحت بھی فرما دی ہے کہ وہ کون سا کلام مراد ہے جو ایسے لوگوں سے نہیں کیا جائے گا چناچہ فرمایا گیا کہ ” قیامت کے روز یہ لوگ اللہ کے خطاب سے محروم رہیں گے کہ وہ انہیں معاف کر کے گناہوں سے ہرگز پاک نہیں کرے گا۔ “ معلوم ہوگیا وہ جس خطاب سے محروم رہیں گے وہ خطاب ان کو گناہوں سے پاک کرنے اور انکو معاف کرنے کا ہے جس کی نفی کی گئی ہے اور اس جگہ بھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی آیت پر غور فرمالیں۔
Top